Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے میں میکھ نکالتے اور انھیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ 3۔ 2 اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] قرآن کی رو سے کافر کون کون ہیں ؟ یعنی جن کی تمام تر کوششیں دنیوی مفادات اور ان کے حصول میں لگی ہوئی ہیں آخرت کی انھیں کچھ فکر نہیں۔ وہ دنیا کے لئے آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کو تو قربان کرنے پر تیار ہیں لیکن آخرت کی فلاح و نجات حاصل کرنے کی خاطر اس دنیا کا کوئی نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پھر ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی انھیں دنیوی مفادات کی ترغیب دے کر اللہ کی راہ کی طرف نہ آنے دیں یا راہ حق کی طرف چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے اور انھیں اپنے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا اسی قرآن میں سے گمراہی کی راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کافروں کو تباہ کن عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔- [ ٣] اللہ کی راہ میں کجی کی صورتیں :۔ یہ خطاب سب کے لیے عام ہے خواہ کافر ہوں یا مسلم۔ ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا حکم اپنی مرضی کے مطابق ہو اسے تو تسلیم کرلیا جائے اور جو مرضی کے مطابق نہ ہو اسے یا تو چھوڑ دیا جائے یا اس کا انکار کردیا جائے اور یا اس کی تاویل کرکے اللہ کے حکم کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جائے اور اس ٹیڑھ کو اختیار کرنے کے عام طور پر دو ہی سبب ہوتے ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسرے موجودہ زمانہ کے نظریات سے مرعوبیت۔ اور اس مرض کا شکار عوام سے زیادہ علمائے سوء ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر اوقات گمراہی کی اس انتہاء کو جا پہنچتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ : ” يَسْتَحِبُّوْنَ “ سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی اللہ تعالیٰ کو تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کو محبوب رکھنا ہی پسند نہیں جبکہ یہ کفار آخرت کے مقابلے میں دنیا کو بہت زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دنیا کی چیزوں سے محبت اس وقت بربادی کا باعث ہے جب وہ اللہ کی محبت کے مقابلے میں غالب ہو، ورنہ دنیا سے فائدہ مومن کے لیے بھی جائز ہے، بلکہ اللہ کی محبت کے تحت اور اس کے احکام کے تحت اپنے بیوی بچوں، دوستوں اور مال وغیرہ سے محبت فطری چیز ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے اجر ملتا ہے۔ اس کے برعکس رہبانیت اس فطرت سے جنگ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ - وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ کی راہ جو بالکل سیدھی اور بےعیب ہے، کافر اس میں عیب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ٹیڑھی بتاتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اس کے اختیار کرنے سے باز رکھ سکیں۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ- اس آیت میں منکریں قرآن کافروں کے تین حال بتلائے گئے ہیں ایک یہ کہ وہ دنیا کی زندگی کو بہ نسبت آخرت کے زیادہ پسند کرتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں اسی لئے دنیا کے نفع یا آرام کی خاطر آخرت کا نقصان کرنا گوارا کرلیتے ہیں اس میں ان کے مرض کی تشخیص کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کے واضح معجزات دیکھنے کے باوجود اس سے منکر کیوں ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کو دنیا کی موجودہ زندگی کی محبت نے آخرت کے معاملات سے اندھا کر رکھا ہے اس لئے ان کو اپنی اندہیری ہی پسند ہے روشنی کی طرف آنے سے کوئی رغبت نہیں۔- دوسری خصلت ان کی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ خود تو اندہیریوں میں رہنے کو پسند کرتے ہی ہیں اس پر ظلم یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو بھی روشنی کی شاہراہ یعنی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔- قرآن فہمی میں بعض غلطیوں کی نشاندہی :- تیسری خصلت وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا میں بیان کی گئی ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہ لوگ اپنی بدباطنی اور بدعملی کے سبب اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے روشن اور سیدھے راستہ میں کوئی کجی اور خرابی نظر آئے تو ان کو اعتراض اور طعن کا موقع ملے ابن کثیر نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔- اور اس جملہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے راستے یعنی قرآن وسنت میں کوئی چیز ان کے خیالات اور خواہشات کے موافق مل جائے تو اس کو اپنی حقانیت کے استدلال میں پیش کریں تفسیر قرطبی میں اسی معنی کو اختیار کیا گیا ہے جیسے آج کل بیشمار اہل علم اس میں مبتلا ہیں کہ اپنے دل میں ایک خیال کبھی اپنی غلطی سے کبھی کسی دوسری قوم سے متاثر ہو کر گھڑ لیتے ہیں پھر قرآن و حدیث میں اس کے مؤ یدات تلاش کرتے ہیں اور کہیں کوئی الفظ اس خیال کی موافقت میں نظر پڑگیا تو اس کو اپنے حق میں قرآنی دلیل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ کار اصولا ہی غلط ہے کیونکہ مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے خیالات و خواہشات سے خالی الذہن ہو کر کتاب وسنت کو دیکھے جو کچھ ان سے واضح طور پر ثابت ہوجائے اسی کو اپنا مسلک قرار دے۔- (آیت) اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ اس جملہ میں ان کفار کا انجام بد بیان کیا گیا ہے جن کی تین صفتیں اوپر بیان ہوئی ہیں اور حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی گمراہی میں بڑی دور جا پہنچے ہیں کہ اب ان کا راہ پر آنا مشکل ہے۔- احکام و مسائل :- تفسیر قرطبی میں ہے کہ اگرچہ اس آیت میں صراحۃ یہ تین خصلتیں کفار کی بیان کی گئی ہیں اور انہی کا یہ انجام ذکر کیا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں دور چلے گئے ہیں لیکن اصول کی رو سے جس مسلمان میں بھی یہ تین خصلتیں موجود ہوں وہ بھی اس وعید کا مستحق ہے ان تین خصلتوں کا خلاصہ یہ ہے - ١ دنیا کی محبت کو آخرت پر غالب رکھیں یہاں تک کہ دین کی روشنی میں نہ آئیں۔- ٢ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شریک رکھنے کے لئے اللہ کے راستہ سے روکیں۔- ٣ قرآن وسنت کو ہیر پھیر کر کے اپنے خیالات پر منطبق کرنے کی کوشش کریں۔ نعوذ باللہ منہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ ۝- استحباب - وحقیقة الاستحباب : أن يتحرّى الإنسان في الشیء أن يحبّه، واقتضی تعدیته ب ( علی) معنی الإيثار، وعلی هذا قوله تعالی: وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت 17]- میں ایسا معنی تلاش کرنے کے ہیں جس کی بناء پر اس سے محبت کی جائے مگر یہ ان علی ( صلہ ) کی وجہ سے اس میں ایثار اور ترجیح کے معنی پیدا ہوگئے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت 17] کے معنی بھی یہ ہیں کہ انہوں نے اندھا پن کو ہدایت پہ ترجیح دی ۔ - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - عوج - الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال :- عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ،- ( ع و ج ) العوج - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اور لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکتے ہیں اور اس میں خمیدگی کے متلاشی رہتے ہیں یہ کفار حق اور ہدایت سے دور اور کھلی گمراہی میں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ )- یہ آیت ہم سب کو دعوت دیتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی ترجیحات کا تجزیہ کرے کہ اس کی مہلت زندگی کے اوقات کار کی تقسیم کیا ہے ؟ اس کی بہترین صلاحیتیں کہاں کھپ رہی ہیں ؟ اور اس نے اپنی زندگی کا بنیادی نصب العین کس رخ پر متعین کر رکھا ہے ؟ پھر اپنی مشغولیات میں سے دنیا اور آخرت کے حصے الگ الگ کر کے دیکھے کہ دنیوی زندگی (مَتاع الغُرُوْر) کو سمیٹنے کی اس بھاگ دوڑ میں سے اصل اور حقیقی زندگی (خَیْرٌ وَّاَبْقٰی) کے لیے اس کے دامن میں کیا کچھ بچتا ہے ؟- (وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ )- اللہ کے راستے سے روکنے کی مثالیں آج بھی آپ کو قدم قدم پر ملیں گی۔ مثلاً ایک نوجوان کو اگر اللہ کی طرف سے دین کا شعور اور متاع ہدایت نصیب ہوئی ہے اور وہ اپنی زندگی کو اسی رخ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے والدین اور دوست احباب اس کو سمجھانے لگتے ہیں ‘ کہ تم اپنے کیرئیر کو دیکھو ‘ اپنے مستقبل کی فکر کرو ‘ یہ تمہارے دماغ میں کیا فتور آگیا ہے ؟ غرض وہ کسی نہ کسی طرح سے اسے قائل کر کے اپنے اسی رستے پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر وہ خود اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :3 یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے ، آخرت کی پروا نہیں ہے ۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں ، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان ، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کر سکتے ۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کر لیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرا ئے گا وہاں اسے قربان کرتے چلے جائیں گے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :4 یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین ان کی مرضی کا تابع ہوکر رہے ۔ ان کے ہر خیال ، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظام فکر میں نہ رہنے دے جو ان کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو ۔ ان کی ہر رسم ، ہر عادت ، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا ان سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو ۔ وہ ان کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطان نفس کے اتباع میں مڑیں ادھر وہ بھی جائے ، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے ۔ وہ اللہ کی بات صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اِس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ اسلام میں کوئی نہ کوئی عیب تلاش کرتے رہتے ہیں، تاکہ انہیں اعتراض کا موقع ملے، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں جب کوئی بات ان کے خیالات اور خواہشات کے مطابق مل جائے تو اُس کو اپنے باطل نظریات کی تائید میں پیش کریں۔