Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر قوم کی اپنی زبان میں رسول یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی انتہائی درجے کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس کی امت کی زبان میں ہی بھیجا ہے ۔ حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے ، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وہ غالب ہے ، اس کا ہر کام حکمت سے ہے ، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں ۔ چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لئے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی ۔ آنحضرت محمد بن عبداللہ علیہ صلوات اللہ کی رسالت عام تھی ساری دنیا کی سب قوموں کی طرف آپ رسول اللہ تھے جیسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جو کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں مہینے بھر کی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ قرار دی گئی ہے ، مجھ پر مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہیں تھے ، مجھے شفاعت سونپی گئی ہے ہر نبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں ۔ قرآن یہی فرماتا ہے کہ اے نبی اعلان کر دو کہ میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ 4۔ 2 لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] قرآن کا بیان کیا چیز ہے ؟ یعنی رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو ہم زبان ہونے کے باوجود قرآن کا بیان بتائے یا سکھائے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بیان محض قرآن کے الفاظ کو دہرا دینے کا نام نہیں بلکہ بیان میں قرآن کے الفاظ کا صحیح صحیح مفہوم بتانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمت عملی اور طریق امتثال بتانا سب کچھ شامل ہے قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نازل کرنے والے اور جس پر نازل کیا گیا ہے دونوں کے نزدیک قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ زید (متکلم) بکر (مخاطب) سے کہتا ہے کہ پانی لاؤ، تو بکر زید کے حکم کی تعمیل صرف اس صورت میں کرسکے گا جبکہ متکلم اور مخاطب دونوں کے ذہن میں پانی، اور لانا، دونوں الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ اور اگر زید کوئی ذو معنی لفظ بولے گا تو جب تک اس کی مزید وضاحت نہ کرے گا بکر اس پر عمل نہ کرسکے گا اسی طرح اگر زید کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہو جو اردو کو سمجھتا ہی نہ ہو تو بھی وہ اس کے حکم کی تعمیل نہ کرسکے گا۔ اور سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے صرف الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان کا مفہوم بھی مخاطب (رسول اللہ) کے ذہن میں القا کردیا تاکہ امتثال امر میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ یعنی مفہوم کو مخاطب کے ذہن میں متعین کردینا ہی قرآن کا بیان ہے۔- قرآن کا بیان کیوں ضروری ہے ؟:۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورة القیامۃ میں واضح طور پر فرمایا کہ قرآن کے ساتھ اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے اور قرآن اور بیان دونوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور یہی بیان رسول اللہ نے امت کو سکھایا تھا۔ مثلاً قرآن میں بیشمار مقامات پر (اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) کا لفظ آیا ہے۔ اس آیت میں صلوٰۃ کو قائم کرنے کا حکم ہے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ صلوۃ ہے کیا چیز، تب تک تعمیل ناممکن ہے۔ لغت میں اس کے معنی دیکھنے سے تو کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ مثلاً نماز ادا کرنے کی ترتیب، کتنی رکعات پڑھی جائیں۔ اس سے پہلے طہارت کا حکم، نمازوں کے اوقات وغیرہ یہ سب کچھ امت کو بتانا رسول اللہ کا کام تھا اور یہی قرآن کا بیان ہے۔ یہی حال دوسری شرعی اصطلاحات کا ہے اور وہ بھی بکثرت ہیں۔ مثلاً الٰہ، دین، عبادت، صلوٰۃ، صوم، حج، مناسک حج، طواف، تلبیہ، رکوع، سجود، قیام، عمرہ، آخرت، معروف و منکر وغیرہ ان سب اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر سمجھا جائے گا جو اللہ کے رسول نے بیان فرمایا ہو۔ - قرآن کا بیان آپ کی ذمہ داری ہے :۔ علاوہ ازیں کئی الفاظ کثیر المعانی ہوتے ہیں۔ کچھ محاورۃً استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے عرفی معانی اور ہوتے ہیں اور لغوی اور۔ ان سب الفاظ کی تفسیر و تشریح کا نام قرآن کا بیان ہے۔ کتاب کا محض اس زبان میں اترنا ہی کافی نہیں ہوتا جو قومی زبان ہو۔ بلکہ بہت سے مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کے بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کا بیان آپ کی ذمہ داری تھی اور اسی بیان کو سنت کہا جاتا ہے۔- [ ٥] یہ بات نہیں کہ چونکہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے لہذا وہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے دے۔ بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے ضرور ہدایت دی جائے اور گمراہ صرف اسے کرتا ہے جو گمراہی کی راہ اختیار کرے اور حق بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِيُبَيِّنَ لَهُمْ : تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے اور وہ اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہو سکے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے گئے وہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، وہ پیغمبر اس قوم کا ایک فرد ہوتا تھا اور وہ انھی کی زبان بولتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت گو عام ہے اور قیامت تک کے تمام جن و انس کے لیے ہے، لیکن آپ کی قوم، جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولین مخاطب تھی، عربی زبان بولتی تھی، اس لیے طبعی ترتیب کے مطابق آپ نے ان کو اللہ کا پیغام عربی زبان میں پہنچایا، مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع، اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور دعوت اسلام کے لیے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہوسکتی۔ عربی زبان میں نازل ہونے کے بعد دوسری اقوام کا عربی سیکھنا (جو تمام زبانوں سے آسان ہے) یا اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوجانا تمام اقوام کی ہدایت کے لیے کافی ہے، جیسا کہ الحمد للہ ہو رہا ہے۔- فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔۔ : یعنی گو ہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے میں جو بعض کفار کو یہ شبہ ہے کہ یہ عربی کیوں ہے جس سے احتمال ہوتا ہے کہ خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصنیف کرلیا ہوگا عجمی زبان میں کیوں نہیں تاکہ یہ احتمال ہی نہ ہوتا اور قرآن دوسری کتب سماویہ سے عجمی ہونے میں متوافق بھی ہوتا تو یہ شبہ محض لغو ہے کیونکہ) ہم نے تمام (پہلے) پیغمبروں کو (بھی) انہی کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ (ان کی زبان میں) ان سے (احکام الہیہ کو) بیان کریں (کہ اصل مقصود واضح بیان ہے تو سب کتابوں کا ایک زبان میں ہونا کوئی مقصد نہیں) پھر (بیان کرنے کے بعد) جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گمراہ کرتے ہیں (کہ وہ ان احکام کو قبول نہیں کرتا) اور جس کو چاہیے ہدایت کرتے ہیں (کہ وہ ان احکام کو قبول کرلیتا ہے) اور وہی (سب امور پر) غالب ہے (اور) حکمت والا ہے (پس غالب ہونے کے سبب سب کو ہدایت کرسکتا تھا مگر بہت سی حکمتیں اس کو مقتضی نہ ہوئیں )- معارف و مسائل :- پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور سہولت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی رسول کس قوم کی طرف بھیجا ہے تو اس قوم کا ہم زبان بھیجا ہے تاکہ وہ احکام الہیہ انہی کی زبان اور انہی کے محاورات میں بتلائے اور ان کو اس کا سمجھنا آسان ہو اگر رسول کی زبان امت کی زبان سے مختلف ہوتی تو ظاہر ہے کہ اس کے احکام سمجھنے میں امت کو ترجمہ کرنے کرانے کی مشقت بھی اٹھانا پڑتی اور پھر بھی احکام کو صحیح سمجھنا مشکوک رہتا اس لئے اگر عبرانی زبان بولنے والوں کی طرف کوئی رسول بھیجا تو رسول کی زبان بھی عبرانی ہی تھی فارسیوں کے رسول کی زبان بھی فارسی، بربریوں کے رسول کی زبان بربری رکھی گئی خواہ اس صورت سے کہ جس شخص کو رسول بنایا گیا وہ خود اسی قوم کا فرد ہو اور مادری زبان اسی قوم کی زبان ہو یا یہ کہ اس کی پیدائشی اور مادری زبان اگرچہ کچھ اور ہو مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ اس نے اس قوم کی زبان سیکھ لی جیسے حضرت لوط (علیہ السلام) اگرچہ اصل باشندے عراق کے تھے جہاں کی زبان فارسی تھی لیکن ملک شام کی طرف ہجرت کرنے کے بعد انہی لوگوں میں شادی کی اور شامیوں کی زبان ہی ان کی زبان بن گئی تب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خطہ شام کا نبی بنایا۔- اور ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی بعثت مکان و مقام کے اعتبار سے پوری دنیا کے لئے اور زمانے کے اعتبار سے قیامت تک کے لئے عام ہے دنیا کی کوئی قوم کسی ملک کی رہنے والی کسی زبان کی بولنے والی آپ کے دائرہ رسالت ونبوت سے باہر نہیں اور قیامت تک جتنی قومیں اور زبانیں نئی پیدا ہوں گی وہ سب کی سب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت میں داخل ہوں گی جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا۔ یعنی اے لوگو میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف اور صحیح بخاری ومسلم میں بروایت جابر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان اپنی پانچ امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے پہلے ہر رسول و نبی خآص اپنی قوم و برادری کی طرف مبعوث ہوا کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام اقوام بنی آدم کی طرف مبعوث فرمایا - حق تعالیٰ نے اس عالم میں انسانی آبادی کو حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع فرمایا اور انہی کو انسانوں کا سب سے پہلا نبی اور پیغمبر بنایا پھر انسانی آبادی جس طرح اپنی عمرانی اور اقتصادی حیثت سے پھیلتی اور ترقی کرتی رہی اسی کی مناسبت سے رشد و ہدایت کے انتظامات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف رسولوں پیغمبروں کے ذریعہ ہوتے رہے زمانہ کے ہر دور اور ہر قوم کے مناسب حال احکام اور شریعتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ عالم انسانی کا نشوونما سن کمال کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سید الاولین والآخرین امام الانبیاء محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پوری دنیا کا رسول بنا کر بھیجا اور جو کتاب و شریعت آپ کو دی وہ پورے عالم اور قیامت تک کے پورے زمانے کے لئے کامل ومکمل کر کے دی اور ارشاد فرمایا (آیت) اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ ۔ یعنی میں نے آج تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمہارے لئے پوری کردی۔- پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں بھی اپنے وقت اور اپنے خطہ کے اعتبار سے کامل و مکمل تھیں ان کو بھی ناقص نہیں کہا جاسکتا لیکن شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کا کمال کسی خاص وقت اور خاص خطہ کے ساتھ مخصوص نہیں یہ کامل علی الاطلاق ہے اسی حیثیت سے تکمیل دین اس شریعت کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی وجہ سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلسلہ نبوت ختم کردیا گیا۔- قرآن کریم عربی زبان میں کیوں ہے :- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں کے رسول ان کے ہم زبان بھیجے گئے ان کو ترجمہ کرنے کی محنت کی ضرورت نہ رہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف عرب میں عربی زبان کے ساتھ کیوں مبعوث ہوئے ؟ اور آپ کی کتاب قرآن بھی عربی زبان ہی میں کیوں نازل ہوئی لیکن غور و فکر سے کام لیا جائے تو جواب صاف ہے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور دعوت تمام اقوام دنیا کے لئے عام ہوئی جن میں سینکڑوں زبانیں رائج ہیں تو ان سب کی ہدایت کے لئے دو ہی صورتیں ممکن تھیں ایک یہ کہ قرآن ہر قوم کی زبان میں جدا جدا ہوتیں اللہ کی قدرت کاملہ کے سامنے اس کا انتظام کوئی دشوار نہ تھا لیکن تمام اقوام عالم کے لئے ایک رسول ایک کتاب ایک شریعت بھیجنے کا جو ایک عظیم مقصد ان تمام اقوام عالم میں ہزاروں طرح کے اختلافات کے باوجود دینی، اخلاقی، معاشرتی وحدت اور یک جہتی پیدا کرنا ہے وہ اس صورت سے حاصل نہ ہوتا۔- اس کے علاوہ جب ہر قوم ہر ملک کا قرآن و حدیث الگ زبان میں ہوتے تو اس میں تحریف قرآن کے بیشمار راستے کھل جاتے اور قرآن کریم کے کلام کا محفوظ ہونا جو اس کی ایسی خصوصیت ہے کہ اغیار اور منکرین قرآن بھی اس کے تسلیم کرنے سے گریز نہیں کرسکتے یہ معجزانہ خصوصیت قائم نہ رہتی اور ایک ہی دین ایک ہی کتاب کے ہوتے ہوئے اس کے ماننے والوں کی اتنی مختلف راہیں ہوجاتیں کہ کوئی نقطہ وحدت ہی باقی نہ رہتا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کے ایک عربی زبان میں نازل ہونے کے باوجود اس کی تعبیر و تفسیر میں کس قدر اختلافات جائز حدود میں پیش آئے اور ناجائز و باطل طریقوں سے اختلاف کی تو کوئی حد نہیں لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں کی قومی وحدت اور ممتاز تشخص ان سب لوگوں میں موجود ہے جو قرآن پر کسی درجہ میں بھی عامل ہیں - خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و بعثت کا پوری اقوام دنیا کے لئے عام ہونے کی صورت میں ان سب کی تعلیم و ہدایت کی یہ صورت کہ قرآن ہر قوم کی زبان میں الگ الگ ہوتا اس کو تو کوئی ادنیٰ سمجھ کا آدمی درست نہیں سمجھ سکتا اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کسی ایک ہی زبان میں آئے اور رسول کی زبان بھی وہی قرآن کی زبان ہو پھر دوسری ملکی اور علاقائی زبانوں میں اس کے ترجمے پہونچائے اور پھیلائے جائیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب علماء ہر قوم ہو ملک میں آپ کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی قوم وملک کی زبان میں سمجھائیں اور شائع کریں اس کے لئے حق تعالیٰ نے تمام دنیا کی زبانوں میں سے عربی زبان کا انتخاب فرمایا جس کی بہت سی وجوہ ہیں - عربی کی خصوصیات :- اول یہ کہ عربی زبان آسمان کی دفتری زبان ہے فرشتوں کی زبان عربی ہے لوح محفوظ کی زبان عربی ہے جیسا کہ (آیت) قرآن بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ سے معلوم ہوتا ہے اور جنت جو انسان کا وطن اصلی ہے اور جہان اس کو لوٹ کر جانا ہے اس کی زبان بھی عربی ہے طبرانی، مستدرک حاکم، شعب الایمان بہیقی میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : احبوالعرب لثلاث لانی عربی والقران عربی و کلام اہل الجنۃ عربی، (اس روایت کو حاکم نے مستدرک میں صحیح کہا ہے جامع صغیر میں بھی صحیح کی علامت بتاتی ہے بعض محدثین نے اس کو ضعیف و مجروح کہا ہے) حافظ حدیث ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ مضمون اس حدیث کا ثابت ہے درجہ حسن سے کم نہیں (فیض القدیر شرح جامع صغیر، ص ١٧٩ ج ١)- معنی حدیث کے یہ ہیں کہ تم لوگ تین وجہ سے عرب سے محبت کرو ایک یہ کہ میں عربی ہوں دوسرے یہ کہ قرآن عربی ہے تیسرے یہ کہ اہل جنت کی زبان عربی ہے۔- تفسیر قرطبی وغیرہ میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی زبان جنت میں عربی تھی زمین پر نازل ہونے اور توبہ قبول ہونے کے بعد عربی ہی زبان میں کچھ تغیرات ہو کر سریانی زبان پیدا ہوگئی اس سے ان روایات کی بھی تائید وتقویت ہوتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ سے منقول ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمائی ہیں ان کی اصلی زبان عربی ہی تھی جبرئیل امین نے قومی زبان میں ترجمہ کر کے پیغمبروں کو بتلایا اور انہوں نے اپنی قومی زبان میں امتوں کو پہونچایا یہ روایات علامہ سیوطی نے اتقان میں اور آیت مذکورہ کے ذیل میں اکثر مفسرین نے نقل کی ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سب آسمانی کتابوں کی اصل زبان عربی ہے مگر قرآن کریم کے سوا دوسری کتابیں ملکی اور قومی زبانوں میں ترجمہ کرکے دی گئی ہیں اس لئے ان کے معانی تو سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہیں یہ صرف قرآن کی خصوصیت ہے کہ اس کے معانی کی طرح الفاظ بھی حق تعالیٰ ہی کی طرف سے آئے ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعوٰی کیا کہ سارا جہان جن وانس جمع ہو کر بھی قرآن کی ایک چھوٹی سورة بلکہ ایک آیت کی مثال نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ معنوی اور لفظی حیثیت سے کلام الہی اور ایک صفت الہی ہے جس کی کوئی نقل نہیں اتار سکتا معنوی حیثیت سے تو دوسری آسمانی کتابیں بھی کلام الہی ہیں مگر ان میں شاید اصل عربی الفاظ کے بجائے ترجمہ ہونے ہی کی وجہ سے یہ دعوٰی کسی دوسری آسمانی کتاب نے نہیں کیا ورنہ قرآن کی طرح کلام الہی ہونے کی حیثیت سے ہر کتاب کی یکتائی اور بےمثال ہونا یقینی تھا - عربی زبان کے انتخاب کی ایک وجہ خود اس زبان کی ذاتی صلاحیتیں بھی ہیں کہ ایک مفہوم کی ادائیگی کے لئے اس میں بیشمار صورتیں اور طریقے ہیں - اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر عربی زبان سے ایک مناسبت عطا فرمائی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص بآسانی عربی زبان بقدر ضرورت سیکھ لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین جس ملک میں پہنچنے تھوڑے ہی عرصہ میں بغیر کسی جبر واکراہ کے پورے ملک کی زبان عربی ہوگئی، مصر، شام، عراق سب میں کسی کی زبان بھی عربی نہ تھی جو آج عربی ممالک کہلاتے ہیں۔- ایک یہ وجہ بھی ہے کہ عرب لوگ اگرچہ اسلام سے پہلے سخت بداعمالیوں کے شکار تھے مگر اس قوم کی صلاحیتیں اور ملکات اور جذبات ان حالتوں میں بھی بےنظیر تھے یہی وجہ تھی کہ حق تعالیٰ نے اپنے سب سے بڑے اور آخری رسول کو ان میں پیدا فرمایا اور ان کی زبان کو قرآن کے لئے اختیار فرمایا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے پہلے انہی کی ہدایت وتعلیم کا حکم دیا (آیت) وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ اور سب سے پہلے اسی قوم کے ایسے افراد اپنے رسول کے گرد جمع فرما دیئے جنہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی جان، مال، اولاد سب کچھ قربان کیا اور آپ کی تعلیمات کو جانوں سے زیادہ عزیز سمجھا اور اس طرح ان پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت وتعلیم کا وہ گہرا رنگ چڑھا کہ پوری دنیا میں ایک ایسا مثالی معاشرہ پیدا ہوگیا جس کی نظیر اس سے پہلے آسمان و زمین نے نہیں دیکھی تھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بےمثال جماعت کو قرآنی تعلیمات کے پھیلانے اور شائع کرنے کے لئے کھڑا کردیا اور فرمایا :- بلغوا عنی ولوا آیۃ، یعنی مجھ سے سنی ہوئی ہر بات کو امت تک پہنچا دو جاں نثار صحابہ نے اس ہدایت کو پلے باندھا اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ کر قرآن اور اس کی تعلیمات کو جہان میں پھیلا دیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر پچیس سال گذرنے نہ پائے تھے کہ قرآن کی آواز مشرق و مغرب میں گونجنے لگی۔- دوسری طرف حق تعالیٰ نے تقدیری اور تکوینی طور پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت جس میں دنیا کے مشرکین اور اہل کتاب یہود و نصاری سب داخل ہیں ان میں ایک خاص ملکہ اور جذبہ تعیلم و تعلم اور تصنیف و تالیف، تبلیغ و اشاعت کا ایسا پیدا فرما دیا کہ اس کی نظیر دنیا کی پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی اس کے نتیجہ میں عجمی اقوام میں نہ صرف قرآن وسنت کے علوم حاصل کرنے کا قوی جذبہ پیدا ہوا بلکہ عربی زبان کو حاصل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت میں عجمیوں کا قدم عرب سے پیچھے نہیں رہا۔- یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ اس وقت عربی لغت اور محاورات اور اس کے قواعد نحو و صرف (گرامر) پر جتنی کتابیں دنیا میں موجود ہیں وہ بیشتر عجمیوں کی لکھی ہوئی ہیں، قرآن وسنت کی جمع و تدوین پھر تفسیر و تشریح میں بھی ان کا حصہ عربوں سے کم نہیں رہا۔- اس طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اور آپ کی کتاب عربی ہونے کے باوجود پورے عالم پر محیط ہوگئی اور دعوت و تبلیغ کی حد تک عرب و عجم کا فرق مٹ گیا ہر ملک وقوم اور ہر عجمی زبان کے لوگوں میں ایسے علماء پیدا ہوگئے جنہوں نے قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی قومی زبانوں میں نہایت سہولت کے ساتھ پہنچا دیا اور رسول کو قوم کی زبان میں بھیجنے کی جو حکمت تھی وہ حاصل ہوگئی۔- آخر آیت میں فرمایا کہ ہم نے لوگوں کی سہولت کے لئے اپنے رسولوں کو ان کی زبان میں اس لئے بھیجا کہ وہ ہمارے احکام ان کو اچھی طرح سمجھا دیں لیکن ہدایت اور گمراہی پھر بھی کسی انسان کے بس میں نہیں اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے وہ جس کو چاہتے ہیں گمراہی میں رکھتے ہیں جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں وہی بڑی قوت اور حکمت والے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۭ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۝- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو ان ہی کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ ان ہی کی زبان میں ان سے احکام الہی کو بیان کردیں یا یہ کہ ایسی زبان میں جس کے سیکھنے پر وہ قادر ہوں پھر جو گمراہی کا مستحق ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کردیتے ہیں اور جو ہدایت کا اہل ہوتا ہے اسے اپنے دین کی ہدایت دیتے ہیں اور وہی اپنے ملک اور سلطنت میں جو ایمان نہ لائے، اسے سزادینے میں غالب ہے اور اپنے حکم اور فیصلہ میں اور گمراہ کرنے اور ہدایت عطا کرنے میں حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ )- یعنی ہر قوم کی طرف مبعوث رسول پر وحی اس قوم کی اپنی ہی زبان میں آتی تھی تاکہ بات کے سمجھنے اور سمجھانے میں کسی قسم کا ابہام نہ رہ جائے ‘ اور ابلاغ کا حق ادا ہوجائے۔ جیسے حضرت موسیٰ کو تورات دی گئی تو عبرانی زبان میں دی گئی جو آپ کی قوم کی زبان تھی۔- (فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ )- اس کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے اسے جو چاہتا ہے گمراہ ہونا اور ہدایت دیتا ہے اس کو جو چاہتا ہے ہدایت حاصل کرنا ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :5 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اس پر اسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے ، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے محض معجزہ دکھانے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں ۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :6 یعنی باوجود اس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے ، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہو جاتی ۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں ۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہرحال اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے ، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :7 یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پالینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملا خود مختار نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کی بالادستی سے مغلوب ہیں ۔ لیکن اللہ اپنی اس بالادستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے ۔ وہ بالادست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے ۔ اس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے ۔ اور جس کو راہ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: کفارِمکّہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ قرآن عربی زبان میں کیوں اُتارا گیا ہے؟ اگر یہ کسی ایسی زبان میں ہوتا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں جانتے تو اس کا معجزہ ہونا بالکل واضح ہوجاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر رسول کو اُس کی قوم کی مادری زبان میں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اپنی قوم کو اُس کی اپنی زبان میں اﷲ تعالیٰ کے احکام سمجھا سکے۔ کسی اور زبان میں قرآن نازل کیا جاتا تو تم یہ اعتراض کرتے کہ اسے ہم کیسے سمجھیں ؟ چنانچہ یہی بات سورۃ حمٓ السجدہ (۴۱:۴۴) میں فرمائی گئی ہے۔ 3: یعنی جو کوئی حق کا طلب گار بن کر اُس کو پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس کو ہدایت دے دیتے ہیں، اور جو شخص ضد اور عناد کے ساتھ پڑھتا ہے، اُسے گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں۔ مزید دیکھئے پچھلی سورت (۱۳:۳۳)کا حاشیہ۔