46۔ 1 یہ جملہ حالیہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ جو کیا وہ کیا، درآنحالیکہ انہوں نے باطل کے اثبات اور حق کے رد کرنے کے لئے مقدور بھر حیلے اور مکر کیے اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے یعنی اس کے پاس درج ہے جس کی وہ ان کو سزا دے گا۔ 46۔ 2 کیونکہ اگر پہاڑ ٹل گئے ہوتے تو اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے، جب کہ سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ ثابت اور برقرار ہیں۔ یہ ان نافیہ کی صورت میں ہے دوسرے معین ان مخففۃ من المثقلۃ کے لیے گئے ہیں یعنی یقینا ان کے مکر تو اتنے بڑے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کے مکروں کو کامیاب نہیں ہوتے دیا جیسے مشریکن کے شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخرالجبال ھدا۔ ان دعوا للرحمن ولدا۔ سورة مریم۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں اس بات پر کہ انہوں نے کہا اللہ رحمان کی اولاد ہے۔
[٤٦] کفار مکہ کی زبردست چال کیا تھی ؟ :۔ یہ الفاظ بطور محاورہ استعمال ہوئے ہیں یعنی ان کی چالیں اس قدر یقینی اور تیر بہدف تھیں کہ ان کے خطا ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ چالیں کیا تھیں ؟ اس کا ذکر قرآن کی دوسری آیات میں موجود ہے کہ یا تو اس پیغمبر کو جلا وطن کردیا جائے یا قید کردیا جائے یا قتل کردیا جائے۔ پھر اتقاق اس بات پر ہوا تھا کہ اس کے گھر کا محاصرہ کیا جائے اور یہ محاصرین ہر قبیلے کے ایک ایک فرد پر مشتمل ہوں گے۔ جو سب مل کر حملہ کرکے اس کو قتل کریں گے اور اس طرح پیغمبر اسلام اور اسلام دونوں کا مکمل طور پر قلع قمع ہوجائے گا وغیرذٰلِکَ یہ مطلب اس صورت میں ہے۔ جب (وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ 46 ۔ ) 14 ۔ ابراھیم :46) میں ان کو شرطیہ سمجھا جائے اور بعض مفسرین نے یہاں ان کو نافیہ سمجھا ہے اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ ان کی چالیں کوئی ایسی تو نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ ٹل جاتے۔ یعنی اللہ کی چال کے مقابلہ میں انکی چالوں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اللہ کی تدبیر ہی ایسی مستحکم ہوتی ہے کہ اس سے پہاڑ بھی ٹل جاتے ہیں۔ ناممکن باتیں بھی ممکن بن جاتی ہیں۔ اور بعض مفسرین ان الفاظ کو صرف قریش مکہ تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ان الفاظ سے تمام سرکش اقوام مراد لیتے ہیں جنہوں نے نہایت مضبوط اور بلند وبالا عمارتیں تعمیر کر رکھی تھیں کہ اللہ کا عذاب آئے بھی تو وہ محفوظ رہ سکیں۔ پہاڑ ٹل جائیں تو ٹل جائیں مگر ان کی تدبیریں ناکام نہ ہوں۔ مگر جب عذاب آیا تو تباہ و برباد ہوگئے پھر تم ان سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ ۔۔ : یعنی ان پہلے کفار اور موجودہ کفار نے اپنے انبیاء اور اہل ایمان کے خلاف اپنی زیادہ سے زیادہ اور خطرناک سے خطرناک جو بھی خفیہ تدبیر اور سازش وہ کرسکتے تھے کی۔ ” عِنْدَ اللہِ مَکْرُھُم “ سے یہی مراد ہے اور اللہ کو ان کی ہر سازش کا علم تھا۔ اس آیت کے تحت تفسیروں میں نمرود کا قصہ بھی ذکر کردیا گیا ہے جو صحت کے ساتھ ثابت نہیں۔ (رازی) - وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ : یہ ” اِنْ “ نافیہ (یعنی نہیں کے معنی میں) ہے، اس کے بعد لام پر کسرہ ہے، اسے لام جحد کہتے ہیں جو نفی کی تاکید کے لیے آتا ہے اور اس کے بعد فعل مضارع ” أَنْ “ کے ساتھ منصوب ہوتا ہے جو لام جحد کے بعد وجوباً محذوف ہوتا ہے۔ عام قراءت یہی ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ” ان کی تدبیر ہرگز ایسی نہ تھی کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں “ یعنی اللہ کا دین جو پہاڑوں کی طرح مستحکم ہے ان کی سازشیں کسی صورت اسے نقصان نہ پہنچا سکتی تھیں۔ - کسائی کی قراءت اس سے مختلف ہے، وہ ” لِتَزُوْلَ “ کو لام کے فتح کے ساتھ اور ” تَزُوْلُ “ کو مرفوع پڑھتے ہیں۔ اس صورت میں ” وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ “ میں ” اِن “ ”إِنَّہُ “ کا (یعنی حرف مشبہ بالفعل ”إِنَّ “ اور اس کے اسم ضمیر شان ” ہٗ “ کا قائم مقام) مخفف ہے اور ” لَتَزُوْلُ “ میں لام ابتدا تاکید کے لیے ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ یقیناً ان کی تدبیر اور سازش ایسی خطرناک اور شدید خوف ناک تھی کہ پہاڑ بھی (اگر کسی طرح اپنی جگہ سے ٹل سکتے تو) ان سازشوں سے ضرور ہی ٹل جاتے۔ - یاد رہے کہ یہ ترجمہ ” لَتَزُوْلُ “ یعنی لام ابتدا مفتوح اور آخری لام مرفوع پڑھنے کی صورت میں ہوگا، پہلی قراءت (یعنی پہلا لام مکسور اور آخری منصوب) کا یہ ترجمہ اگر کوئی کرلے تو وہ درست نہیں ہوگا۔ معنوی طور پر دوسری قراءت بھی بہت عمدہ ہے اور پہلی بھی۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَال یعنی ان لوگوں نے دین حق مٹانے اور دعوت حق قبول کرنے والے مسلمانوں کو ستانے اور ایذاء پہونچانے کے لئے بھر پور تدبیریں کیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی سب کھلی اور چھپی ہوئی تدبیریں سامنے موجود ہیں وہ سب سے واقف اور ان کو ناکام بنا دینے پر قادر ہیں اگرچہ ان کی تدبیریں ایسی عظیم اور سخت تھیں کہ ان کے مقابلہ پر پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ ساری تدبیریں گرد اور ناکام ہو کر رہ گئیں۔- جن مخالفانہ تدبیروں کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد پچھلی ہلاک شدہ قوموں کی تدبیریں ہوں مثلا نمرود، فرعون، قوم عاد وثمود وغیرہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں موجودہ مشرکین عرب کا حال بیان کیا گیا ہو کہ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں بڑی گہری اور دور رس سازشیں اور تدبیریں کیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ناکام بنادیا۔- اور اکثر مفسرین نے وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ میں لفظ ان کو حرف نفی قرار دے کر یہ معنی کئے ہیں کہ اگرچہ انہوں نے بہت سی تدبیریں کیں اور چالیں چلیں لیکن ان کی تدبیروں اور چالوں سے یہ ممکن نہ تھا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں اور پہاڑ سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کا عزم و استقلال ہے کہ کفار کی کوئی چال اس پر اثر انداز نہیں ہوسکی۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ 46- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- زال - زَالَ الشیء يَزُولُ زَوَالًا : فارق طریقته جانحا عنه، وقیل : أَزَلْتُهُ ، وزَوَّلْتُهُ ، قال : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر 41]- زول - زال الشئ یزول زوالا کسی چیز کا اپنا صحیح رخ چھوڑ کر ایک جانب مائل ہونا ( اپنی جگہ سے ہٹ کر جانا اور ازلتہ وزولتہ کے معنی ہیں ایک جانب مائل کردینا ۔ کسی چیز کو اس کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر 41]- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7]- ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟
(٤٦) اور ان لوگوں نے رسولوں کو جھٹلانے میں بہت بڑی بڑی تدبیریں کی تھیں اور ان کی ان تدبیروں کی سزا اللہ تعالیٰ کے سامنے تھی اور ان کی تدبیریں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔
آیت ٤٦ (وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ )- اے قریش مکہ جس طرح آج تم ہمارے نبی کے خلاف اپنی چالیں چل رہے ہو اسی طرح تم سے پہلے والے لوگوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی تھی۔ جہاں تک ان کا بس چلا تھا انہوں نے اپنی چالیں چلی تھیں۔ قوم نوح ‘ قوم ہود ‘ قوم صالح اور قوم لوط کے سرداروں نے اپنے رسولوں کے خلاف جو کچھ کیا اور جو کچھ کہا اس کی تفصیلات ہم تمہیں سنا چکے ہیں۔ اور قوم شعیب کے سرداروں کی مجبوری کا ذکر بھی ہم کرچکے ہیں جو تم لوگوں کی مجبوری سے ملتی جلتی تھی۔ یعنی ان کا بےچارگی سے یہ کہنا کہ اگر تمہارا قبیلہ تمہاری پشت پر نہ ہوتا تو ہم اب تک تمہیں سنگسار کرچکے ہوتے۔ چناچہ ہمارے لیے اور ہمارے نبی کے لیے تمہاری یہ چالیں ‘ یہ سازشیں اور یہ ریشہ دوانیاں کوئی انہونی نہیں ہیں۔ البتہ تم لوگ اپنی پیشرو اقوام کے واقعات کے آئینے میں اپنے مستقبل اور انجام کی جھلک دیکھنا چاہوتو صاف دیکھ سکتے ہو۔ تم لوگ اندازہ کرسکتے ہو کہ تم سے پہلے ان مشرکین حق کی چالیں کس حد تک کامیاب ہوئیں اور تم تجزیہ کرسکتے ہو کہ ہر بار حق و باطل کی کش مکش کا آخری نتیجہ کیا نکلا۔ - (وَعِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ )- اللہ تعالیٰ ان کی تمام چالوں کا احاطہ کیے ہوئے تھا اور یہ ممکن نہیں تھا کہ اللہ کی مرضی اور مشیت کے خلاف ان کا کوئی منصوبہ کامیاب ہوجاتا۔ بہر حال ان کی چالیں اور منصوبہ بندیاں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کچھ ایسی نہیں تھیں کہ ان کے سبب پہاڑ اپنی جگہ بدلنے پر مجبور ہوجاتے۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :55 یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانین الہٰی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں ، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے ۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی ۔