45۔ 1 یعنی عبرت کے لئے ہم نے تو ان کی پچھلی قوموں کے واقعات بیان کردیئے ہیں، جن کے گھروں میں تم آباد ہو اور ان کے کھنڈرات بھی تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں۔ اگر تم نے ان سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی۔ پھر تم بھی اسی انجام کے لئے تیار رہو
[٤٥] حالانکہ ہم نے سابقہ امتوں کے انجام کی مثالیں دے دے کر تم پر یہ بات واضح کردی تھی کہ ایسا انقلاب آسکتا ہے۔ پہلے بھی آتا رہا ہے اور اب بھی آکے رہے گا اور ان کے قصے تمہارے ہاں زبان زد بھی تھے اور ان کے ہلاک کردہ علاقے تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی رہتے تھے اور انھیں کے علاقوں میں تم میں سے کچھ لوگ آج بھی آباد ہیں۔ لہذا یہ بھی عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہاں سے ہٹا کر دوسرے لوگوں کو آگے لے آئے۔
وَّسَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ۔۔ : یعنی تم لوگ اسی عرب، یمن، عراق اور مصر وغیرہ میں رہ رہے ہو جہاں تم سے پہلے عاد، ثمود، قوم نوح و ابراہیم، قوم لوط اور قوم فرعون رہتے تھے اور ان کے گناہوں کی سزا میں ہم نے ان پر جو عذاب نازل کیے وہ سب تمہیں اچھی طرح معلوم ہوچکے، گو تم زبان سے اقرار نہیں کرتے۔ ہم نے تو تمہیں اپنی کتابوں میں اور اپنے پیغمبروں کی زبانی مثالیں دے دے کر بھی سمجھایا، مثلاً مکھی کی مثال (حج : ٧٣) ، عنکبوت یعنی مکڑی کی مثال۔ (عنکبوت : ٤١) ، کتے کی مثال (اعراف : ١٧٦) اور سراب کی مثال (نور : ٣٩) وغیرہ۔ اس کے علاوہ پہلے کفار کے انجام بطور مثال بھی مراد ہوسکتے ہیں، مثلاً عاد وثمود، فرعون، قوم نوح وغیرہم۔ دیکھیے سورة رعد (٦) اور یونس (١٠٢) ۔
(آیت) وَّسَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ ۔ ظاہر یہ ہے کہ خطاب مشرکین عرب کو ہے جن کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا ہے انذِرِ النَّاس یعنی ڈراؤ ان لوگوں کو اس خطاب میں ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اقوام سابقہ کے حالات و انقلابات تمہارے لئے بہترین واعظ ہیں تعجب ہے کہ تم ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے حالانکہ تم انھی ہلاک شدہ قوموں کے گھروں میں بستے اور چلتے پھرتے ہو اور تمہیں کچھ حالات کے مشاہدہ سے کچھ متواتر خبروں سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر کیسا سخت عذاب نازل کیا اور ہم نے بھی تمہارے راہ پر لانے کے لئے بہت سی مثالیں بیان کیں پھر بھی تم ہوش میں نہیں آتے۔
وَّسَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ 45 - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔
(٤٥) حالانکہ تم پہلے لوگوں کی جگہ میں رہتے تھے جنہوں نے کفر وتکذیب سے اپنی جانوں کا نقصان کیا پھر بھی تم نے ان کی ہلاکت سے نصیحت نہیں حاصل کی اور تمہیں معلوم ہوگیا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔- اور ہم نے تم سے قرآن کریم میں ہر ایک طریقہ سے وعدے وعید، رحمت و عذاب کی مثالیں بیان کیں۔
آیت ٤٥ (وَّسَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ )- تمہارے آس پاس کے علاقوں میں وہ قومیں آباد تھیں جو ماضی میں اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔ قوم عاد بھی اسی جزیرہ نمائے عرب میں آباد تھی قوم ثمود کے مساکن بھی تمہیں دعوت عبرت دیتے رہے قوم مدین کا علاقہ بھی تم سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا اور قوم لوط کے شہروں کے آثار سے بھی تم لوگ خوب واقف تھے۔- (وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ )- ان کے حالات پوری طرح کھول کر تم لوگوں کو سنا دیے گئے تھے۔ یہ تذکیر بایام اللہ کی تفصیلات کی طرف اشارہ ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں حضور سے اسی سورت کی آیت ٥ میں خصوصی طور پر فرمایا گیا : (وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰٹم اللّٰہِ ط) ” کہ آپ اللہ کے دنوں (اقوام گزشتہ کے واقعات عذاب) کے حوالے سے ان لوگوں کو خبردار کریں۔