Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عذاب دیکھنے کے بعد ظالم اور ناانصاف لوگ اللہ کا عذاب دیکھ کر تمنائیں کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمیں ذرا سی مہلت مل جائے کہ ہم فرمابرداری کرلیں اور پیغمبروں کی اطاعت بھی کرلیں ۔ اور آیت میں ہے موت کو دیکھ کر کہتے ہیں آیت ( رب ارجعون ) اے اللہ اب واپس لوٹا دے الخ یہی مضمون آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ Ḍ۝ ) 63- المنافقون:9 ) میں ہے یعنی اے مسلمانوں تمہیں تمہارے مال اولاد یاد الہٰی سے غافل نہ کر دیں ۔ ایسا کرنے والے لوگ ظاہری خسارے میں ہیں ۔ ہمارا دیا ہوا ہماری راہ میں دیتے رہو ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت آرزو کرنے لگو کہ مجھے ذرا سی مہلت نہیں مل جائے تو میں خیرات ہی کر لوں اور نیک لوگوں میں مل جاؤں ۔ یاد رکھو اجل آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی اور اللہ تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے ۔ محشر میں بھی ان کا یہی حال ہوگا ۔ چنانچہ سورہ سجدہ کی آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِم 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) میں ہے کہ کاش کے تم گنہگاروں کو دیکھتے کہ وہ اپنے پروردگار کے روبرو سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک بار دنیا میں پھر بھیج دے کہ ہم یقین والے ہو کر نیک اعمال کرلیں ۔ یہی بیان آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀ ) 6- الانعام:27 ) اور آیت ( وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) وغیرہ میں بھی ہے ۔ یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ تم تو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ تمہاری نعمتوں کو زوال ہی نہیں قیامت کوئی چیز ہی نہیں مر کر اٹھنا ہی نہیں اب اس کا مزہ چکھو ۔ یہ کہا کرتے تھے اور خوب مضبوط قسمیں کھا کھا کر دوسروں کو بھی یقین دلاتے تھے کہ مردوں کو اللہ زندہ نہ کرے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم دیکھ چکے کہ تم سے پہلے کے تم جیسوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ؟ ان کی مثالیں ہم تم سے بیان بھی کر چکے کہ ہمارے عذابوں نے کیسے انہیں غارت کر دیا ؟ باوجود اس کے تم ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور چوکنا نہیں ہوتے ۔ یہ گو کتنے ہی چلاک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے سامنے کسی کی چالاکی نہیں چلتی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جس نے جھگڑا کیا تھا اس نے دو بچے گدھ کے پالے جب وہ بڑے ہو گئے ۔ جوانی کو پہنچے قوت والے ہو گئے تو ایک چھوٹی سی چوکی کے ایک پائے سے ایک کو باندھ دیا دوسرے سے دوسرے کو باندھ دیا انہیں کھانے کو کچھ نہ دیا خود اپنے ایک ساتھی سمیت اس چوکی پر بیٹھ گیا اور ایک لکڑی کے سرے پر گوشت باندھ کر اسے اوپر کو اٹھایا بھوکے گدھ وہ کھانے کے لئے اوپر کو اڑے اور اپنے زور سے چوکی کو بھی لے اڑے اب جب کہ یہ اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ ہر چیز انہیں مکھی کی طرح کی نظر آنے لگی تو اس نے لکڑی جگا دی اب گوشت نیچے دکھائی دینے لگا اس لئے جانوروں نے پر سمیٹ کر گوشت لینے کے لئے نیچے اترنا شروع کیا اور تخت بھی نیچا ہونے لگا یہاں تک کہ زمین تک پہنچ گیا پس یہ ہیں وہ مکاریاں جن سے پہاڑوں کا زوال بھی ممکن سا ہو جائے ۔ عبداللہ کی قرأت میں کاد مکرہم ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت بھی یہی ہے یہ قصہ نمرود کا ہے جو کنعان کا بادشاہ تھا اس نے اس حیلے سے آسمان کا قبض چاہا تھا اس کے بعد قبطیوں کے بادشاہ فرعون کو بھی یہی خبط سمایا تھا بڑا بلند منارہ تعمیر کرایا تھا لیکن دونوں کی ناتوانی ضعیفی اور عاجزی ظاہر ہو گئی ۔ اور ذلت و خواری پستی و تنزل کے ساتھ حقیر و ذلیل ہوئے ۔ کہتے ہیں کہ جب بخت نصر اس حیلہ سے اپنے تخت کو بہت اونچا لے گیا یہاں تک کہ زمین اور زمین والے اس کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اسے ایک قدرتی آواز آئی کہ اے سرکش طاغی کیا ارادہ ہے ؟ یہ ڈر گیا ذرا سی دیر بعد پھر اسے یہی غیب ندا سنائی دی اب تو اس کا پتہ پانی ہو گیا اور جلدی سے نیزہ جھکا کر اترنا شروع کر دیا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی قرأت میں لتزول ہے بدلے میں لتزول کے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو نافیہ مانتے ہیں یعنی ان کے مکر پہاڑوں کو زائل نہیں کر سکتے ۔ حسن بصری بھی یہی کہتے ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس کی توجیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ان کا شرک و کفر پہاڑوں وغیرہ کو ہٹا نہیں سکتا کوئی ضرر دے نہیں سکتا صرف اس کا وبال انہی کی جانوں پر ہے ۔ میں کہتا ہوں اسی کے مشابہ یہ فرمان الہٰی بھی ہے آیت ( ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبار طولا ) زمین پر اکڑفوں سے نہ چل نہ تو تو زمین کو چیر سکتا ہے نہ پہاڑوں کی بلند کو پہنچ سکتا ہے ۔ دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ہے کہ ان کا شرک پہاڑوں کو زائل کر دینے والا ہے ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت ( تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90۝ۙ ) 19-مريم:90 ) اس سے تو آسمانوں کا پھٹ جانا ممکن ہے ۔ ضحاک و قتادہ کا بھی یہی قول ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ کوئی حساب کتاب اور جنت دوزخ نہیں، دوبارہ کسے زندہ ہونا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] اس دن سے مراد یا تو ان کی موت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورة مومنون کی آیت نمبر ١٠٠ سے ہوتی ہے اور یا آخرت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورة السجدہ کی آیت نمبر ١٢ سے ہوتی ہے۔ نیز اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی تباہ کرنے والا عذاب مراد لیا جاسکتا ہے۔- [٤٤] قریش کا قسم کھانا کہ انھیں کبھی زوال نہیں آئے گا :۔ یعنی زبان حال سے یا قال سے گویا انھیں اس بات کا دل میں اس قدر پختہ یقین تھا جیسے کوئی قسم کھا کر وثوق سے کہتا ہے اور وہ یہ بات تھی کہ ہماری اس شان و شوکت کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ صورت حال سامنے لائیے کہ ابتدائے اسلام میں ایک طرف تو رؤسائے قریش تھے جنہیں کعبہ کی تولیت اور بعض دوسری وجوہ سے عرب بھر میں قیادت و سیادت حاصل تھی۔ سارے عرب میں انھیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ تھے اور ان کی عزت اور ناموری کا ڈنکا بجتا تھا۔ دوسری طرف گنتی کے چند بےبس اور ناتواں مسلمان تھے جو ان کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اس صورت میں ان سرداران قریش کو کبھی یہ خیال آسکتا تھا کہ کسی وقت یہ سارا نقشہ الٹ بھی سکتا ہے۔ جب کہ ہم مجبور و محکوم ہوں گے اور یہ مسلمان ہم پر حاکم اور بالادست ہوں گے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے زبان حال سے قسمیں کھانے سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سرکش اور متکبر کافر نے فی الواقع ایسی قسم کھائی بھی ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙنُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۭ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ 44 ۝ ۙ۔۔ : یعنی لوگوں کو اس دن سے ڈرایے۔ لوگوں سے مراد تمام لوگ ہیں، کیونکہ ڈرانے کی ضرورت تو نیک و بد ہر شخص کو ہے۔ اگرچہ اہل ایمان کی جزا کا بھی وہی دن ہے مگر یہاں مقام ڈرانے کا ہے، اس لیے اسی کا ذکر فرمایا، یا ” النَّاسَ “ سے خصوصاً کفار مراد ہیں۔ عذاب کا دن ظالموں کے لیے دنیا میں کسی وقت اور کسی صورت میں ہوسکتا ہے، موت کا وقت بھی مراد ہے اور قیامت کا بھی۔ اس وقت کفار اللہ تعالیٰ کی دعوت قبول کرنے اور رسولوں کی پیروی کرنے کے لیے مہلت مانگیں گے، مگر مہلت کہاں۔ اس مفہوم کی آیات قرآن مجید میں بہت ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مومنون ( ٩٩، ١٠٠) ، سورة سجدہ (١٢) اور منافقون (٩، ١٠) ۔- اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ ۔۔ : ” زَوَالٍ “ کا معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ، یا ایک حالت سے دوسری کی طرف منتقل ہونا ہے، یہاں مراد دوبارہ زندہ ہو کر اور قبروں سے نکل کر آخرت کی زندگی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے انھیں کہیں گے کہ تم نے تو دنیا میں قسمیں کھائی تھیں کہ مرنے کے بعد ہمیں کبھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مقصد انھیں ان کا ماضی یاد دلا کر مزید ذلیل و خوار کرنا ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ ۭ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ النحل : ٣٨ ] ” اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جو مرجائے۔ کیوں نہیں وعدہ ہے اس کے ذمے سچا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تم تو ایسے متکبر بن گئے اور موت کو بھول بیٹھے تھے کہ قسمیں اٹھاتے تھے کہ ہمارے عروج کو کبھی زوال نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙنُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۭ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ 44۝ۙ- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - جوب - والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - وأَقْسَمَ :- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - زال - زَالَ الشیء يَزُولُ زَوَالًا : فارق طریقته جانحا عنه، وقیل : أَزَلْتُهُ ، وزَوَّلْتُهُ ، قال : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر 41]- زول - زال الشئ یزول زوالا کسی چیز کا اپنا صحیح رخ چھوڑ کر ایک جانب مائل ہونا ( اپنی جگہ سے ہٹ کر جانا اور ازلتہ وزولتہ کے معنی ہیں ایک جانب مائل کردینا ۔ کسی چیز کو اس کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر 41]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٤) آپ مکہ والوں کو قرآن کریم کے ذریعے سے اس دن سے ڈرائیے جس دن ان پر عذاب آپڑے گا اور وہ بدر کا دن ہے یا قیامت کا دن ہے تو پھر یہ مشرک کہیں گے، ہمارے پروردگار دنیا کے برابر ایک مدت اور ہم کو مہلت دے دیجیے، ہم توحید کے قائل ہوجائیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کیا تم نے اس سے قبل دنیا میں قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تمہیں دنیا سے کہیں جانا ہی نہیں اور حیات بعد الموت کچھ نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ )- کہ ہمارا اقتدار ہماری یہ شان و شوکت ہماری یہ جاگیریں یہ سب کچھ ہماری بڑی سوچی سمجھی منصوبہ بندیوں کا نتیجہ ہے انہیں کہاں سے زوال آئے گا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani