43۔ 1 مھطعین۔ تیزی سے دوڑ رہے ہونگے۔ دوسرے مقام پر فرمایا، مھطعین الی الداع۔ القمر بلانے والے کی طرف دوڑیں گے اور حیرت سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہونگے۔ 43۔ 2 جو ہولناکیاں وہ دیکھیں گے اور جو فکر اور خوف اپنے بارے میں انھیں ہوگا، ان کے پیش نظر ان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لئے بھی پست نہیں ہونگی اور کثرت خوف سے ان کے دل گرے ہوئے اور خالی ہونگے۔
” مُهْطِعِيْنَ “ تیز دوڑنے والے۔ ” أَھْطَعَ یُھْطِعُ “ (افعال) کا معنی ہے تیز دوڑنا۔ یہ لفظ سورة قمر (٨) اور سورة معارج (٣٦) میں بھی انھی معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی قبروں سے نکل کر صور کی آواز کی طرف تیزی سے اس طرح دوڑ کر جا رہے ہوں گے کہ سر اوپر کی طرف اٹھے ہوئے اور آنکھیں کھلی، ٹکٹکی بندھی ہوگی۔ ” مُقْنِعِيْ “ یہ لفظ اصل میں باب افعال سے مذکر اسم فاعل ” مُقْنِعِیْنَ “ تھا، ” رُءُوْسِهِمْ “ کی طرف مضاف ہونے سے نون گرگیا، اس کا معنی ہے دائیں بائیں دیکھے بغیر اوپر کو سر اٹھانا، بعض نے اس کا معنی سر جھکانا بھی کیا ہے۔ (طنطاوی) ” أَفْءِدَۃٌ“ ” فُوَادٌ“ کی جمع ہے، بمعنی دل۔ ” مُقْنِعِيْ “ کا معنی ہے خالی، یعنی ان کے دل گھبراہٹ کی وجہ سے سوچ سمجھ سے خالی ہوں گے۔
مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ یعنی خوف وحیرت کے سبب سر اوپر اٹھائے ہوئے بےتحاشا دوڑ رہے ہوں گے (آیت) لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ ان کی پلکیں نہ جھپکیں گی وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ ان کے دل خالی بدحواس ہوں گے۔- یہ حالات بیان کرنے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ آپ اپنی قوم کو اس دن کے عذاب سے ڈرائیے جس میں ظالم اور مجرم لوگ مجبور ہو کر پکاریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں کچھ اور مہلت دیدیجئے یعنی پھر دنیا میں چند روز کے لئے بھیج دیجئے تاکہ ہم آپ کی دعوت قبول کرلیں اور آپ کے رسولوں کا اتباع کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی درخواست کا یہ جواب ہوگا کہ اب تم یہ کہہ رہے ہو کیا تم نے اس سے پہلے یہ قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ ہماری دولت و شوکت کو زوال نہ ہوگا ہم ہمیشہ دنیا میں یونہی عیش و عشرت میں رہیں گے اور دوبارہ زندگی اور عالم آخرت کا انکار کیا تھا۔
مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43ۭ- هطع - هَطَعَ الرجل ببصره : إذا صوّبه، وبعیر مُهْطِعٌ:إذا صوّب عنقه . قال تعالی: مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم 43] ، مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر 8] .- ( ھ ط ع )- ھطع الرجل ببصرہ کے معنی ہیں اس نے نظر جماکر دیکھا اور گردن اٹھا کر چلنے والے اونٹ کو بعیر مھطع کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم 43] ( اور لوگ ) سر اٹھائے ہوئے ( میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے ۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ نہ سکیں گی ۔ مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر 8] اس بلانے والے کی طرف دوڑتے جاتے ہوں گے - قْنَعَ- رأسه : رفعه . قال تعالی: مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم 43] وقال بعضهم : أصل هذه الکلمة من الْقِنَاعِ ، وهو ما يغطّى به الرّأس، فَقَنِعَ ، أي : لبس القِنَاعَ ساترا لفقره کقولهم : خفي، أي : لبس الخفاء، وقَنَعَ : إذا رفع قِنَاعَهُ کاشفا رأسه بالسّؤال نحو خفی إذا رفع الخفاء، ومن الْقَنَاعَةِ قولهم : رجل مَقْنَعٌ يُقْنَعُ به، وجمعه : مَقَانِعُ.- ( ق ن ع ) القناعۃ - اقنع راسہ اس نے اپنے سر کو انچا کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم 43] سر اٹھائے ہوئے بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قناع سے مشتق ہے اور قناع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سر ڈھانکا جائے اس سے قنع ( س ) کے معنی ہیں اس نے اپنے فقر کو چھپانے کے لئے سر پر قناع اوڑھ لیا اور قنع ( ف ) کے معنی سوال کرنے کے لئے سر کھولنے کے ہیں جیسا کہ خفی ( س) کے معنی چھپنے اور خفٰی کے معنی خفاء کو دور کرنے یعنی ظاہر ہونے کے ہیض اور رجل مقتنع کا محاورہ قناعۃ سے ہے یعنی وہ آدمی جس کی شہادت کو کافی سمجھا جائے اس کی جمع مقانع - طرف - طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ- [هود 114] - ( ط رف ) الطرف - کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ - فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔- هوى- وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية- ( ھ و ی ) الھوی - الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔
(٤٣) اور وہ بلانے والے کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف دوڑتے ہوں گے اپنے سروں کو ہلاتے ہوئے یا اوپر اٹھاتے ہوئے ہوں گے یا یہ کہ اپنی گردنوں کو بلند کیے ہوئے ہوں گے، شدت، گھبراہٹ اور خوف کے مارے انکی نظران کی طرف ہٹ کر نہ آئے گی اور ان کے دل ہر ایک نیکی سے بالکل خالی ہوں گے یا یہ بالکل بدحواس ہوں گے۔
آیت ٤٣ (مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ)- خوف اور دہشت کے سبب نظریں ایک جگہ جم کر رہ جائیں گی اور ادھر ادھر حرکت کرنا بھی بھول جائیں گی۔ یہ میدان حشر میں لوگوں کی کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :54 یعنی قیامت کا جو ہولناک نظارہ ان کے سامنے ہوگا اس کو اس طرح ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں ، نہ پلک جھپکے گی ، نہ نظر ہٹے گی ۔
30: یعنی جو ہولناک انجام ان کے سامنے ہوگا۔ اس کی وجہ سے وہ ٹکٹکی باندھ کر ایک ہی طرف دیکھ رہے ہوں گے اور پلک جھپکانے کی جو صلاحیت دنیا میں تھی وہ ان کے پاس اس وقت واپس نہیں آئے گی