ہولناک منظر ہو گا کوئی یہ نہ سمجھے کہ برائی کرنے والوں کی برائی کا اللہ کو علم ہی نہیں اس لئے یہ دنیا میں پھل پھول رہے ہیں ، نہیں اللہ ایک ایک کے ایک ایک گھڑی کے برے بھلے اعمال سے بخوبی واقف ہے یہ ڈھیل خود اسکی دی ہوئی ہے کہ یا تو اس میں واپس ہو جائے یا پھر گناہوں میں بڑھ جائے یہاں تک کہ قیامت کا دن آ جائے ۔ جس دن کی ہولناکیاں آنکھیں پتھرا دیں گی ، دیدے چڑھا دیں گی ، سر اٹھائے پکارنے والے کی آواز کی طرف دوڑے چلے جائیں گے ، کہیں ادھر ادھر نہ ہوں گے ۔ سب کے سب پورے اطاعت گزار بن جائیں گے ، دوڑے بھاگے حضور کی حاضری کیلئے بےتابانہ آئیں گے ، آنکھیں نیچے کو نہ جھکیں گی ، گھبراہٹ اور فکر کے مارے پلک سے پلک نہ جھپکے گی ۔ دلوں کا یہ حال ہو گا کہ گویا اڑے جاتے ہیں ۔ خالی پڑے ہیں ۔ خوف کے سوا کوئی چیز نہیں ۔ وہ حلقوم تک پہنچے ہوئے ہیں ، اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے ہیں ، دہشت سے خراب ہو رہے ہیں ۔
42۔ 1 یعنی قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے۔ اگر دنیا میں اگر اللہ نے کسی کو زیادہ مہلت دے دی اور اس کے مرنے تک اس کا مواخذہ نہیں کیا تو قیامت کے دن تو وہ مواخذہ الٰہی سے نہیں بچ سکے گا، جو کافروں کے لئے اتنا ہولناک دن ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
[٤٢] قیامت کی ہولناکی کا ایک منظر :۔ کچھ ظالم ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اور آخرت میں تو بہرحال انھیں یقیناً سزا دے گا اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں زندگی بھر دنیا میں سزا نہیں ملتی اور ان کی رسی دراز رکھی جاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ ان کی کرتوتوں سے بیخبر ہے بلکہ مجرموں کو دنیوی اور اخروی سزا دینے کے لیے بھی اللہ کے ہاں قانون مقرر ہے جس کا انحصار گناہوں کی کمیت اور کیفیت پر ہوتا ہے۔ جن مجرموں کو دنیا میں سزا نہ ملے تو ان کی سزا کو روز آخرت تک موخر کردیا جاتا ہے۔ اس دن کی ہولناکی اور دہشت کا یہ حال ہوگا کہ مجرم اپنی پلکیں بھی نہ جھپک سکیں گے اور ان کی آنکھیں مسلسل یہ منظر دیکھ رہی ہوں گی اور بند بھی نہ ہو سکیں گی۔ وہ اسی حالت میں سر اٹھائے اور نظریں سامنے جمائے میدان محشر کی طرف دوڑ رہے ہوں گے وہ نیچے کی طرف بھی نہ دیکھ سکیں گے اور دہشت سے ان کے دل دھڑک رہے ہوں گے اور کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ اس دن سب لوگ سر تاپا برہنہ ہوں گے اور دہشت کا یہ عالم ہوگا کہ کسی کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کا خیال نہ آئے گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔- سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ اٹھائے جاؤ گے میں نے کہا یارسول اللہ مرد عورت ایک دوسرے کو دیکھیں گے نہیں ؟ فرمایا : وہ وقت اتنا سخت ہوگا کہ اس بات کے قصد کا کسی کو ہوش ہی نہ ہوگا (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب کیف الحشر) (مسلم۔ کتاب الجنۃ۔ باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامۃ)
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا ۔۔ :” الظّٰلِمُوْنَ “ سے مراد یہاں کفار اور مشرکین ہیں اور یہ بات اس سورت کی آیت (٤٤) سے صاف واضح ہو رہی ہے، یعنی اگر اللہ تعالیٰ ان کفار کو مہلت دے رہا ہے تو مت سمجھو کہ وہ ان کے اعمال سے بیخبر ہے۔ - اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ ۔۔ : ” تَشْخَصُ “ باب ” مَنَعَ “ سے ہے، ” شُخُوْصٌ“ کا معنی ہے خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے آنکھوں کا کھلا رہ جانا، حرکت نہ کرنا۔
خلاصہ تفسیر - اور اے (مخاطب) جو کچھ یہ ظالم (کافر) لوگ کر رہے ہیں اس سے خدا تعالیٰ کو (جلدی عذاب نہ دینے کی بنا پر) بیخبر مت سمجھ (کیونکہ) ان کو صرف اس روز تک مہلت دے رکھی ہے جس میں ان لوگوں کو نگاہیں (مارے حیرت اور ہیبت کے) پھٹی رہ جاویں گی (اور وہ موقف حساب کی طرف حسب الطلب) دوڑتے ہوں گے (اور فرط حیرت سے) اپنے سر اوپر اٹھا رکھے ہوں گے (اور) ان کی نظر ان کی طرف ہٹ کر نہ آویگی (یعنی ایسی ٹکٹکی بندھے گی کہ آنکھ نہ جھپکیں گے) اور ان کے دل (شدت ہول سے) بالکل بدحواسی ہوں گے اور (جب وہ دن آجاوے گا پھر مہلت نہ ہوگی پس) آپ ان لوگوں کو اس دن (کے آنے سے ڈرائیے جس دن ان پر عذاب آ پڑے گا پھر یہ ظالم لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ایک مدت قلیل تک ہم کو (اور) مہلت دیدیجئے (اور دنیا میں پھر بھیج دیجئے) ہم (اس مدت میں) آپ کا سب کہنا مان لیں گے اور پیغمبروں کا اتباع کریں گے (جواب میں ارشاد ہوگا کہ کیا ہم نے دنیا میں تم کو مہلت طویلہ نہ دی تھی اور) کیا تم نے (اس مہلت کے طول ہی کے سبب) اس کے قبل (دنیا میں) قسمیں نہ کھائی تھیں کہ تم کو (دنیا سے) کہیں جانا ہی نہیں ہے (یعنی قیامت کے منکر تھے اور اس پر قسم کھاتے تھے کقولہ تعالیٰ (آیت) وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ ) حالانکہ (انکار سے باز آجانے کے اسباب سب مجتمع تھے چناچہ (تم ان (پہلے) لوگوں کے رہنے کی جگہوں میں رہتے تھے جنہوں نے (کفر و انکار قیامت کر کے) اپنی ذات کا نقصان کیا تھا اور تم کو (تواتر اخبار سے) یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیونکر معاملہ کیا تھا (کہ ان کے کفر و انکار پر ان کو سزائیں دیں اس سے تم کو معلوم ہوسکتا تھا کہ انکار کرنا موجب غضب ہے بس تصدیق واجب ہے اور ان کے مساکن میں رہنا ہر وقت ان کے ان حالات کی یاد دلانے کا سبب ہوسکتا تھا پس انکار کی کسی وقت گنجائش نہ تھی) اور (علاوہ ان واقعات کے سننے کے جو کہ عبرت کے لئے کافی تھے) ہم نے (بھی) تم سے مثالیں بیان کیں (یعنی کتب سماویہ میں ہم نے بھی ان واقعات کو مثال کے طور پر بیان کیا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تم بھی ایسے ہی مغضوب و مستحق عذاب ہو گے پس واقعات کا اولا اخبار سے سننا پھر ہمارا ان کو بیان کرنا پھر مماثلت پھر تنبیہ کردینا یہ سب اسباب مقتضی اس کو تھے کہ قیامت کا انکار نہ کرتے) اور (ہم نے جن پہلے لوگوں کو ان کے کفر و انکار پر سزائیں دیں) ان لوگوں نے (دین حق کے مٹانے میں) اپنی سی بہت ہی بڑی بڑی تدبیریں کیں تھیں اور ان کی (یہ سب) تدبیریں اللہ کے سامنے تھیں (اس کے علم سے مخفی نہ رہ سکتی تھیں) اور واقعی ان کی تدبیریں ایسی تھیں کہ (عجب نہیں) ان سے پہاڑ بھی (اپنی جگہ سے) ٹل جاویں (مگر پھر بھی حق ہی غالب رہا اور ان کی ساری تدبیریں لغو و بیکار ہوگئیں اور وہ ہلاک کئے گئے اس سے بھی معلوم ہوگیا کہ حق وہی ہے جو پیغمبر فرماتے تھے اور اس کا انکار موجب غضب و عذاب ہے جب قیامت میں ان کا مغلوب ہونا معلوم ہوگیا) پس (اے مخاطب) اللہ تعالیٰ کو اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا نہ سمجھنا (چنانچہ قیامت کے دن ان کے منکرین کے عذاب کا وعدہ تھا سو وہ پورا ہوگا جیسا اوپر مذکور ہوا) بیشک اللہ تعالیٰ بڑا زبردست (اور) پورا بدلہ لینے والا ہے (کہ اس کو کوئی بدلہ لینے سے نہیں روک سکتا پس قدرت بھی کامل پھر مشیت کا تعلق اوپر معلوم ہوا پھر خلف وعدہ کا کیا احتمال رہا اور یہ بدلہ اس روز ہوگا) جس روز دوسری زمین بدل جاوے گی اس زمین کے علاوہ اور آسمان بھی (دوسرے بدل دیئے جاویں گے ان آسمانوں کے علاوہ کیونکہ اول بار کے نفخ صور سے سب زمین و آسمان ٹوٹ پھوٹ جاویں گے پھر دوسری بار میں از سر نو زمین و آسمان بنیں گے) اور سب کے سب ایک (اور) زبردست اللہ کے روبرو پیش ہوں گے (مراد اس سے قیامت کا دن ہے یعنی قیامت میں بدلہ لیاجاوے گا) اور (اس روز اے مخاطب) تو مجرموں کو (یعنی کافروں کو) زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا (اور) ان کے کرتے قطران کے ہوں گے (یعنی سارے بدن کو قطران لپٹی ہوگی کہ اس میں آگ جلدی اور تیزی کے ساتھ لگے اور قطران درخت چیڑ کا روغن ہوتا ہے کمافی کتب اللغات والطب) اور آگ ان کے چہروں پر (بھی) لپٹی ہوگی (یہ سب کچھ اس لئے ہوگا) تاکہ اللہ تعالیٰ ہر (مجرم) شخص کو اس کے کئے کی سزادے (اور گو ایسے مجرم بےانتہا ہوں گے مگر) یقینا اللہ تعالیٰ (کو ان کا حساب و کتاب کچھ دشوار نہیں کیونکہ وہ) بڑی جلد حساب لینے والا ہے (سب کا فیصلہ شروع کر کے فورا ہی ختم کردے گا) یہ (قرآن) لوگوں کے لئے احکام کا پہنچانا ہے (تاکہ مبلغ یعنی رسول کی تصدق کریں) اور تاکہ اس کے ذریعہ سے (عذاب سے) ڈرائے جائیں اور تاکہ اس بات کا یقین کرلیں کہ وہی ایک معبود برحق ہے اور تاکہ دانش مند لوگ نصیحت حاصل کرلیں۔- معارف و مسائل :- سورۃ ابراہیم میں حضرت انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے کچھ حالات و معاملات کی تفصیل اور احکام الہیہ کی مخالفت کرنے والوں کے انجام بد اور آخر میں حضرت خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ تھا جنہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی اور جن کی اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی بستی بسائی اور اس کے بسنے والوں کو ہر طرح کا امن وامان اور غیر معمولی طور پر معاشی سہولتیں عطا فرمائیں انہی کی اولاد بنی اسماعیل قرآن عظیم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب اول ہیں،- سورة ابراہیم کے اس آخری رکوع میں خلاصہ کے طور پر انہی اہل مکہ کو پچھلی قوموں کی سرگذشت سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین اور اب بھی ہوش میں نہ آنے کی صورت میں قیامت کے ہولناک عذابوں سے ڈرایا گیا ہے - پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر مظلوم کی تسلی اور ظالم کے لئے سخت عذاب کی دھمکی ہے کہ ظالم اور مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی ڈھیل دینے سے بےفکر نہ ہوجائیں اور یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے جرائم کی خبر نہیں اس لئے باوجود جرائم کے وہ پھل پھول رہے ہیں کوئی عذاب و مصیبت ان پر نہیں آتی بلکہ وہ جو کچھ کر رہے سب اللہ کی نظر میں ہے مگر وہ اپنی رحمت اور حکمت کے تقاضے سے ڈھیل دے رہے ہیں - (آیت) وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا یعنی نہ سمجھو اللہ تعالیٰ کو غافل یہ خطاب بظاہر ہر اس شخص کے لئے ہے جس کو اس کی غفلت اور شیطان نے اس دھوکہ میں ڈالا ہوا ہے اور اگر اس کا مخاطب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو بھی مقصود اس سے امت کے غافلوں کو سنانا اور تنبیہ کرنا ہے کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا امکان ہی نہیں کہ وہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو حالات سے بیخبر یا غافل سمجھیں۔- دوسری آیت میں بتلایا کہ ان ظالموں پر فوری طور سے عذاب نہ آنا ان کے لئے کچھ اچھا نہیں کیونکہ اس کا انجام یہ ہے کہ یہ لوگ اچانک قیامت اور آخرت کے عذاب میں پکڑ لئے جائیں گے آگے ختم سورت تک اس عذاب آخرت کی تفصیلات اور ہولناک وقائع کا بیان ہے۔- لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَار یعنی اس دن جب کہ پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ڛ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ 42ۙ- حسب - والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - أخر - والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - شخص - الشَّخْصُ : سواد الإنسان القائم المرئيّ من بعید، وقد شَخَصَ من بلده : نفذ، وشَخَصَ سهمه، وبصره، وأَشْخَصَهُ صاحبه، قال تعالی: لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، شاخِصَةٌ أَبْصارُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الأنبیاء 97] ، أي : أجفانهم لا تطرف .- ( ش خ ص ) ( الشخص )- کھڑے انسان کا جسم جو دور سے نظر آئے اسے شخص کہاجاتا ہے اور شخص من بلدہ کے معنی شہر سے چلے جانا کے ہیں ۔ شخص بصرہ اس کی آنکھ پتھراگئی ۔ شخص سھمہ تیر نشانے سے اونچا نکل گیا ۔ اور اشخص ( افعال) اس نے نشانے سے اونچا نکال دیا ۔ قرآن میں ہے : شْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] جب کہ ( وہشت کے سبب ) آنکھ کھلی کی کھلی رہ جائے گی ۔ شاخِصَةٌ أَبْصارُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الأنبیاء 97] کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
(٤٢) جو کچھ یہ مشرک لوگ کر رہے ہیں تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت نہیں فرمائے گا ان کو صرف قیامت کے دن تک کی مہلت دے رکھی ہے، اس دن کافروں کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔
29: پیچھے یہ فرمایا گیا تھا کہ ان ظالموں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کر کے اپنی قوم کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے اس پر کسی کے دل میں یہ خیال ہوسکتا تھا کہ دنیا میں تو یہ لوگ ترقی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس خیال کا جواب ان آیتوں میں دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے اور بالآخر یہ ایک ہولناک عذاب میں پکڑے جائیں گے۔ اس وقت ہیبت سے ان کا جو حال ہوگا اس کی تفصیل انتہائی بلیغ اسلوب میں بیان فرمائی گئی ہے جس کی تاثیر کو کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگرچہ یہ انجام براہ راست تو مکہ مکرمہ کے کافروں کا بیان فرمایا گیا ہے لیکن الفاظ عام ہیں اور جب کبھی ظالم لوگ بڑھتے چڑھتے نظر آئیں تو ان پر بھی یہ آیات پوری طرح صادق آتی ہیں۔