41۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی ان پر اپنے ماں باپ کا عَدُوُّاللّٰہِ ہونا واضح نہیں ہوا تھا، جب یہ واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اظہار سبکدوشی کردیا۔ اس لئے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہیں چاہے وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔
[٤١] سیدنا ابراہیم کی اپنے والدین کے حق میں معافی کی دعا یا تو مشرک کے لیے دعائے مغفرت سے امتناع سے پہلے کی ہے اور یا اپنے باپ سے اس وعدہ کی بنا پر ہے جو آپ نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے والد سے کیا تھا جس کا ذکر سورة توبہ کی آیت نمبر ١١٤ میں گزر چکا ہے تاہم یہ دعا اس قدر جامع ہے جو ہر مسلمان کو اپنے والدین کے حق میں مانگتے رہنا چاہیے۔ اور اسی اہمیت کے پیش نظر ہر نماز میں درود کے بعد اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگی جاتی ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ۔۔ : والد کے لیے بخشش کی دعا وہ وعدہ پورا کرنے کے لیے تھی جو انھوں نے گھر سے نکلتے وقت اس سے کیا تھا، مگر جب وہ شرک ہی پر فوت ہوگیا اور اللہ سے اس کی دشمنی ختم ہونے کی امید ہی نہ رہی تو وہ اس سے صاف بری ہوگئے۔ (دیکھیے توبہ : ١١٤) رہی اپنی والدہ کے لیے دعا تو شاید وہ پہلے ہی مسلمان ہوچکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق تفصیل سے کچھ بیان نہیں فرمایا۔ تمام مومنین کے حق میں مغفرت کی دعا نوح (علیہ السلام) (نوح : ٢٨) سے لے کر ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بخاری : ٧٥١٠) تک انبیاء اور اہل ایمان کرتے چلے آئے ہیں۔ (دیکھیے حشر : ١٠)
آخر میں ایک جامع دعاء فرمائی (آیت) رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤ ْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَاب یعنی اے ہمارے پروردگار میری اور میرے والدین کی اور تمام مؤمنین کی مغفرت فرما اس دن جب کہ محشر میں تمام زندگی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔- اس میں والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائی حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے ہوسکتا ہے کہ یہ دعاء اس وقت کی ہو جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کافروں کی سفارش اور دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا تھا جیسے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے (آیت) وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ۔- احکام و ہدایات :- آیات مذکورہ سے دعاء کے آداب یہ معلوم ہوئے کہ بار بار الحاح وزاری کے ساتھ کی جائے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بھی کی جائے اس طرح دعاء کی قبولیت کی بڑی امید ہوجاتی ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ 41ۧ- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔
(٤١) اور میری اور میرے ماں باپ اور تمام مسلمانوں مرد وعورتوں کی مغفرت فرمائیے جس دن کہ حساب قائم ہوگا اور نیکیوں اور برائیوں کا وزن کیا جائے گا، سوجوس کی نیکیاں غالب ہوں گی تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کی برائیاں غالب ہوں گی، اس کے لیے دوزخ ہے اور جس کی نیکیاں غالب ہوگی تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کی برائیاں غالب ہوں گی، اس کے لیے دوزخ ہے اور جس کی نیکیاں اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی وہ اہل اعراف سے ہوگا۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :53 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو انہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ ، ( مریم ۔ آیت ٤۷ ) ۔ مگر بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اس سے صاف تبری فر ما دی ۔ ( التوبہ ۔ آیت ۱۱٤ ) ۔
28: یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ آزر تو کافر تھا اس کے لیے آپ نے مغفرت کی دعا کیسے فرمائی جواب یہ ہے کہ جس وقت یہ دعا فرمائی ہوسکتا ہے کہ اس کے کفر کی حالت میں مرنے کی آپ کو خبر نہ ہوئی ہو۔ لہذا دعا کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو ایمان کی توفیق مل جائے۔ جو اس کے لیے مغفرت کا سبب ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک آپ کو مشرک باپ کے لیے دعا کرنے سے منع نہ فرمایا گیا ہو۔