Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی کہ انھیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ و دعوت میں انھیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حکم دیا (وَ اَنْذِرُ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ) 26 ۔ الشعراء :214) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ : یہ ابراہیم (علیہ السلام) کی عاجزانہ دعاؤں کا آخری حصہ ہے، جس میں انھوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اس چیز پر پابند رہنے کی دعا کی ہے جو توحید و رسالت کے یقین و اقرار کے بعد اسلام میں سب چیزوں سے زیادہ ضروری ہے، یعنی نماز جو خاشعین (عاجزی کرنے والوں) کے سوا سب لوگوں کے لیے نہایت دشوار ہے (دیکھیے بقرہ : ٤٥، ٤٦) اور جس کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) (جَزَاہ اللّٰہُ عَنَّا وَ عَنْ جَمِیْعِ أُمَّتِنَا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ ) نے کہا تھا کہ میں نے بنی اسرائیل کو بہت زیادہ بھگتا ہے، آپ کی امت پانچ نمازوں کی طاقت بھی نہیں رکھے گی۔ سو جو ایمان و کفر کے درمیان فرق کرنے والی سب سے نمایاں چیز ہے، ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی اتنی فکر تھی کہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اس کی پابندی کی خاص طور پر دعا کی۔ - وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ :” اور میری اولاد میں سے بھی “ بظاہر یہ ” من “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی مجھے اور میری اولاد میں سے بھی کچھ نماز کے پابند بنا، مگر اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے ساری اولاد کے لیے یہ دعا کیوں نہ کی ؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو انسانی تاریخ سے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ” لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ “ سے اندازہ تھا کہ ساری اولاد نمازی نہیں ہو سکے گی، اس لیے انھوں نے یہ دعا کی کہ ایسا نہ ہو کہ اولاد میں سے کوئی بھی نمازی نہ رہے، یہ اسی طرح ہے جیسا کہ انھوں نے دعا کی تھی : (رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ) [ البقرۃ : ١٢٨ ] ” اے ہمارے رب اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔ “ ابن عاشور صاحب ” التحریر والتنویر “ نے لکھا ہے : ” یہ ” مِنْ “ ابتدائیہ ہے، تبعیض کے لیے نہیں اور ” وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ “ محذوف کی صفت ہے جس کا عطف یائے متکلم پر ہے۔ مقدر عبارت اس طرح ہوگی : ” رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَاجْعَلْ مُقِیْمِیْنَ للصَّلَاۃِ مِنْ ذُرِّیَّتِيْ “ یعنی مجھے نماز کا پابند بنا اور نماز کا پابند ان کو بھی بنا جو میری اولاد میں سے ہوں۔ ” وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ “ کی ترکیب بھی اسی طرح ہوسکتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) بت پرستی سے بچنے کی دعا تو اپنے اور اپنی ساری اولاد کے لیے کریں، فرمایا : (وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) [ إبراھیم : ٣٥ ] (اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بت پوجنے سے بچائے رکھ) مگر نماز کا پابند بنانے کی دعا سب کے لیے کرنے کے بجائے بعض کے لیے کریں۔ جب ہم خود دعا کرتے وقت یہ پسند نہیں کرتے کہ یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہماری کچھ اولاد کو نمازی بنا تو ابراہیم (علیہ السلام) یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں ؟ “ ابن عاشور کی بات دل کو لگتی ہے۔ (واللہ اعلم)- رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ : دعا کے بعد پھر قبولیت کی درخواست اپنے عجز کا اظہار اور قبولیت پر اصرار ہے۔ ” دُعَاۗءِ “ پر کسرہ اس لیے ہے کہ یہ اصل میں ” دُعَاءِيْ “ تھا، آیات کے فواصل کی موافقت کے لیے یاء حذف کرکے کسرہ اس پر دلالت کے لیے باقی رکھا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس حمد وثناء کے بعد پھر دعاء میں مشغول ہوگئے اور فرمایا : (آیت) رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ڰ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ جس میں اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے نماز کی پابندی پر قائم رہنے کی دعاء کی اور آخر میں پھر بطور الحاح کے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری یہ دعا قبول فرمائیے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ڰ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ 40؁- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- تَّقَبُّلُ :- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠) میرے پروردگار مجھ کو بھی نماز قائم کرنے والا بنادیجیے اور میری اولاد میں سے بھی یعنی مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی نماز کی بدولت عزت و سرفرازی عطا فرمائیے، پروردگار میری عبادت قبول ومنظور فرما۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ )- یعنی مجھے توفیق عطا فرما دے کہ میں نماز کو پوری طرح قائم رکھوں اور پھر میری اولاد کو بھی توفیق بخش دے کہ وہ لوگ بھی نماز قائم کرنے والے بن کر رہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani