Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ ۔۔ : ” وَھَبَ یَھَبُ ھِبَۃً “ کا معنی کسی معاوضے کے بغیر عطا کردینا ہے۔ معلوم ہوا اولاد اللہ تعالیٰ کا ہبہ ہے، یہ صرف اسباب جمع ہوجانے سے نہیں ہوتی، ورنہ ہر تندرست جوڑے کے ملنے سے اولاد ہوجاتی، بلکہ یہ محض عطائے الٰہی ہے، وہ بھی اس کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے، چاہے تو لڑکے ہی دے، چاہے لڑکیاں، چاہے دونوں ملا کر دے اور چاہے تو بےاولاد رکھے۔ (مزید دیکھیے الشوریٰ : ٥٠) رازی نے فرمایا، قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دونوں بیٹے بڑی عمر اور بڑھاپے میں عطا کیے گئے، لیکن یہ بات کہ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی معلوم نہیں ہوتی، اس کے لیے صرف اسرائیلی روایات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، چناچہ کہا جاتا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ابراہیم (علیہ السلام) ننانویں (٩٩) برس کے تھے اور اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر ایک سو بارہ (١١٢) برس تھی۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہم اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرسکتے۔- لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ : لفظی معنی ہے ” دعا کو بہت سننے والا “ مگر مراد قبول کرنے والا ہے، جیسے کہا جاتا ہے، فلاں کی تو سنی گئی، یعنی مراد پوری ہوگئی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ - اس آیت کا مضمون بھی اس دعاء کا تکملہ ہے کیونکہ یہ دعا کے آداب میں سے ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی جائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خصوصیت سے اس جگہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا کہ شدید بڑھاپے کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرما کر اولاد صالح حضرت اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔- اس حمد وثنا میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ بچہ جو بےیارومدد گار چٹیل میدان میں چھوڑا ہے آپ ہی کا عطیہ ہے آپ ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے آخر میں حمد وثناء کا تکملہ (آیت) اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ سے کیا گیا یعنی بلاشبہ میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ 39؁- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) تمام حمد اسی کے لیے ہے جس نے بڑھاپے میں مجھے اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) عطا کیے، حقیقت میں میرا رب دعا کا بڑا سننے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ )- جب حضرت اسماعیل کی ولادت ہوئی تو حضرت ابراہیم کی عمر 81 برس تھی اور اس کے کئی سال بعد حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani