Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مناجات خلیل الرحمن صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مناجات میں فرماتے ہیں کہ اے اللہ تو میرے ارادے اور میرے مقصود کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے میری چاہت ہے کہ یہاں کے رہنے والے تیری رضا کے طالب اور فقط تیری طرف راغب رہیں ۔ ظاہر و باطن تجھ پر روشن ہے زمین و آسمان کی ہر چیز کا حل تجھ پر کھلا ہے ۔ تیرا احسان ہے کہ اس پورے بڑھاپے میں تو نے میرے ہاں اولاد عطا فرمائی اور ایک پر ایک بچہ دیا ۔ اسماعیل بھی ، اسحاق بھی ۔ تو دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے میں نے مانگا تو نے دیا پس تیرا شکر ہے ۔ اے اللہ مجھے نمازوں کا پابند بنا اور میری اولاد میں بھی یہ سلسلہ قائم رکھ ۔ میری تمام دعائیں قبول فرما ۔ ولوادی کی قرأت بعض نے والوالدی بھی کی ہے یہ بھی یاد رہے کہ یہ دعا اس سے پھلے کی ہے کہ آپ کو اللہ کی طرف سے معلوم ہو جائے کہ آپ کا والد اللہ کی دشمنی پر ہی مرا ہے ۔ جب یہ ظاہر ہو گیا تو آپ اپنے والد سے بیزار ہو گئے ۔ پس یہاں آپ اپنے ماں باپ کی اور تمام مومنوں کی خطاؤں کی معافی اللہ سے چاہتے ہیں کہ اعمال کے حساب اور بدلے کے دن قصور معاف ہوں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 مطلب یہ ہے کہ میری دعا کے مقصد کو تو بخوبی جانتا ہے، اس شہر کے لئے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے تو تو ہر چیز کی حقیقت کو خوب جانتا ہے، آسمان و زمین کی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبَّنَآ اِنَّكَ تَعْلَمُ ۔۔ : یعنی ہماری چھپی ہوئی دلی خواہشوں کو اور جو کچھ ہم زبان سے مانگ رہے ہیں تو سب جانتا ہے۔ یہ مانگنے کا بہترین طریقہ ہے کہ صرف تعریف پر اکتفا کیا جائے۔ ” کتاب الاغانی (٨؍٣٤٤) “ میں ہے کہ امیہ بن ابی الصلت نے عبداللہ بن جدعان کو مخاطب کر کے کہا تھا ؂- أَ أَذْکُرُ حَاجَتِيْ أَمْ قَدْ کَفَانِيْ- حَیَاءُکَ اِنَّ شِیْمَتَکَ الْحَیَاءُ- إِذَا أَثْنَی عَلَیْکَ الْمَرْءُ یَومًا - کَفَاہُ مِنْ تَعَرُّضِہِ الثَّنَاءُ- ” کیا میں اپنی حاجت ذکر کروں یا یقیناً مجھے تیری حیا ہی کافی ہے، کیونکہ تیری عادت ہی حیا ہے، جب آدمی کسی دن تیری تعریف کر دے تو اسے ضرورت پیش کرنے کے بجائے تعریف ہی کافی ہوجاتی ہے۔ “- سفیان بن عیینہ (رض) نے فرمایا : ” جب مخلوق کا یہ حال ہے تو خالق کا کیا حال ہوگا۔ “ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَ أَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ ) [ ابن ماجہ، الأدب، باب فضل الحامدین : ٣٨٠٠۔ ترمذی : ٣٣٨٣، عن جابر (رض) ] ” سب سے بہتر ذکر لا الٰہ الا اللہ ہے اور سب سے بہتر دعا الحمد للہ ہے۔ “ مقصد یہ ہے کہ پروردگار ہم جو مانگ رہے ہیں اور جو کچھ ہمارے دل میں ہے تو سب کچھ جانتا ہے، بیشک اللہ پر آسمان میں کوئی چیز ہو یا زمین میں، مخفی نہیں رہتی۔ سو ہماری ظاہر درخواستوں کے ساتھ دلی مرادیں بھی پوری کر دے۔ یاد رہے کہ وہ مشہور روایت جس میں ذکر ہے کہ آگ میں پھینکے جانے کے وقت بارش کے فرشتے نے ابراہیم (علیہ السلام) کو مدد کی پیش کش کی تو یہ جاننے کے بعد کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجنے کے بجائے اپنی مرضی سے آیا ہے، تو انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کردیا اور جب اس نے کہا کہ پھر آپ خود ہی اللہ تعالیٰ سے دعاکریں تو فرمایا : ( حَسْبِيْ عَنْ سُؤَالِيْ عِلْمُہُ بِحَالِيْ ) یا فرمایا : ( عِلْمُہُ بِحَالِيْ یُغْنِيْ عَنْ سُؤَالِہِ ) ” مجھے سوال کرنے کے بجائے یہی کافی ہے کہ وہ میرے حال کو جانتا ہے۔ “ سو یہ محض ایک اسرائیلی روایت ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَّمْ یَدْعُ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ غَضِبَ عَلَیْہِ ) ” جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ “ [ ابن ماجہ، الدعاء، باب فضل الدعاء : ٣٨٢٧۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ٦؍٣٢٣، ح : ٢٦٥٤ ] اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) [ المؤمن : ٦٠ ] ” اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو (مجھ سے دعا کرو) میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ ایسی روایات صوفی لوگ اپنے خودساختہ وظائف و چلہ جات کو رائج کرنے اور دعا سے محروم کرنے کے لیے بیان کیا کرتے ہیں۔ - 3 بعض مفسرین نے فرمایا کہ اہل مکہ کے لیے صحیح عقیدے اور امن اور کھانے پینے کی چیزیں عطا کرنے کی دعا کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے ہاجرہ و اسماعیل (علیہ السلام) سے جدائی کے وقت گزرنے والی کیفیت، جو آنکھوں کے آنسوؤں یا دل کی بےقراری کی وجہ سے دونوں میاں بیوی پر گزر رہی تھی، وہ پیش کی ہے، مگر شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لائے، یہ حوصلہ پیغمبروں اور ان کے اہل بیت ہی کا ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رَبَّنَآ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِيْ وَمَا نُعْلِنُ ۭ وَمَا يَخْفٰى عَلَي اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ اس آیت میں دعاء کا تکملہ اللہ جل شانہ کے علم محیط کا حوالہ دے کر کیا گیا ہے اور لفظ ربنا کو الحاح وزاری کے لئے مکرر لایا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ آپ ہمارے ہر حال سے واقف اور ہماری قلبی باطنی کیفیات اور ظاہری عرض ومعروض سب سے باخبر ہیں۔- باطنی کیفیات سے مراد وہ رنج وغم اور فکر ہے جو شیرخوار بچے اور اس کی والدہ کو ایک کھلے میدان میں بےسروسامان فریاد کرتے ہوئے چھوڑنے اور ان کی جدائی سے فطری طور پر لاحق ہو رہا تھا اور ظاہری عرض ومعروض سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء اور حضرت ہاجرہ کے وہ کلمات مراد ہیں جو انہوں نے امر الہی کی خبر سن کر کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم کیا ہے تو وہ ہمارے لئے بھی کافی ہے وہ ہمیں بھی ضائع نہیں کرے گا آخر آیت میں علم الہی کی اسی وسعت کا مزید بیان ہے کہ ہمارا ظاہر و باطن ہی کیا تمام زمین و آسمان میں کوئی چیز اللہ تعالیٰ پر مخفی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَآ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِيْ وَمَا نُعْلِنُ ۭ وَمَا يَخْفٰى عَلَي اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ 38؁- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) اے ہمارے پروردگار تجھے سب معلوم ہے جو ہم اسماعیل (علیہ السلام) کی محبت دل میں رکھیں اور اسحاق (علیہ السلام) کی محبت کا اظہار کریں یا یہ کہ جو اسماعیل (علیہ السلام) کا شوق دل میں رکھیں اور اس کی تکلیف کا اظہار کریں اللہ تعالیٰ سے تو کوئی بھی نیکی اور برائی چھپی نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :51 یعنی خدایا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وہ بھی تو سن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھپے ہوئے ہیں ان سے بھی تو واقف ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :52 یہ جملہ معتر ضہ ہے جو اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani