8۔ 1 مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہوجائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پر ہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ ۔
[١٠] اللہ کی بےنیازی :۔ یعنی اللہ کی ناشکری کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا نہ ہی اس کی خدائی میں کچھ فرق آتا ہے نہ وہ کسی کے شکر کا محتاج ہے وہ ان سب باتوں سے بےنیاز ہے اس لیے کہ وہ اپنی ذات میں ہی قابل ستائش ہے اس کے کارنامے ہی ایسے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اس کے گن گا رہی ہے چناچہ صحیح مسلم میں ایک قدسی حدیث ان الفاظ میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب اعلیٰ درجے کے متقی بن جائیں تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں ہوجاتا۔ اور اگر سب کے سب اگلے پچھلے جن و انس ایک بدترین شخص جیسے ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی (مسلم، کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم)
وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا ۔۔ : یعنی اگر تم اور زمین و آسمان کے تمام لوگ ناشکری کرو تو اس ناشکری کا نقصان خود تمھی کو پہنچے گا، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا، اسے نہ تمہارے شکر کی ضرورت ہے اور نہ تمہاری ناشکری کی پروا۔ اس کی ذات ہر تعریف کی حامل ہے، چاہے کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ ابوذر غفاری (رض) حدیث قدسی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا زَادَ ذٰلِکَ فِيْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ ، فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٧٧ ] ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے، تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والے آدمی کے دل والے ہوجائیں تو یہ چیز میری سلطنت میں کسی شے کا اضافہ نہیں کرے گی اور اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل والے ہوجائیں تو یہ چیز میری سلطنت میں کسی شے کی کمی نہیں کرے گی اور اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے، تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں، پھر مجھ سے مانگیں اور میں ہر شخص کو جو اس نے مانگا ہے دے دوں تو یہ چیز اس میں سے جو میرے پاس ہے کچھ کمی نہیں کرے گی، مگر جتنا سوئی جب وہ سمندر میں داخل کی جائے۔ “
(آیت) وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ- یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اگر تم سب اور جتنے آدمی زمین پر آباد ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگو تو یاد رکھو کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں وہ تو سب کی حمد وثناء اور شکر و ناشکری سے بےنیاز اور بالا تر ہے اور وہ اپنی ذات میں حمید یعنی مستحق حمد ہے اس کی حمد تم نہ کرو تو اللہ کے سارے فرشتے اور کائنات کا ذرہ ذرہ کررہا ہے۔- شکر کا فائدہ جو کچھ ہے وہ تمہارے ہی لئے ہے اس لئے شکر گذاری کی تاکید اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ بسبب رحمت تمہیں ہی فائدہ پہونچانے کے لئے ہے۔
وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔
(٨) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم اور تمام دنیا بھر کی سب انسان ناشکری کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان سے بےنیاز ہے اور وہ موحدین کے لیے اپنی حد ذات میں قابل تعریف صفات والے ہیں۔
آیت ٨ (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ)- وہ بےنیاز ہے اس کو کسی کی احتیاج یا پروا نہیں۔ وہ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :13 اس جگہ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہل مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں ۔ اب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفران نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی اپنی جس نعمت کی قدر کرنے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصوصیت کے ساتھ اس کی یہ نعمت ہے کہ اس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بھا العجم ۔ میری ایک بات لو ، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہوجائیں گے ۔