Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حکم سجدہ فرشتوں کو ہوا تھا ابلیس اس میں تبعا شامل قرار دیا گیا :- سورة اعراف میں ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی دیا گیا تھا اسی لئے اس سورت کی جو آیات ابھی آپ نے پڑھی ہیں جن سے بظاہر اس حکم کا فرشتوں کے لئے مخصوص ہونا معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اصالۃً یہ حکم فرشتوں کو دیا گیا مگر ابلیس بھی چونکہ فرشتوں کے اندر موجود تھا اس لئے تبعا وہ بھی اس حکم میں شامل تھا کیونکہ آدم (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم کے لئے جب اللہ تعالیٰ کی بزرگ ترین مخلوق فرشتوں کو حکم دیا گیا تو دوسری مخلوق کا تبعا اس حکم میں داخل ہونا بالکل ظاہر تھا اسی لئے ابلیس نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کا حکم دیا ہی نہیں گیا تو عدم تعمیل کا جرم مجھ پر عائد نہیں ہوتا اور شاید قرآن کریم کے الفاظ (آیت) اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ میں اس کی طرف اشارہ ہو کہ اَبٰٓى اَنْ یسجُدَ کے بجائے اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ ذکر فرمایا جس سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اصل ساجدین تو فرشتے ہی تھے مگر عقلا لازم تھا کہ ابلیس بھی جب ان میں موجود تھا تو وہ بھی ملائکہ ساجدین کے ساتھ شامل ہوجاتا اس کے عدم شمول پر عتاب فرمایا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ 31؀- أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے - بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :20 تقابل کے لیے سورہ بقرہ رکوع٤ ، سورہ ٔ نساء ، رکوع ۱۸ ، اور سورہ اعراف ، رکوع۲ ، پیش نظر رہے ۔ نیز ہمارے ان حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے جو ان مقامات پر لکھے گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani