Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوگا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہوگا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ وانابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] شیطان کو کس حد تک اختیار دیا گیا ہے ؟:۔ شیطان کو صرف اتنا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دھوکے سے، فریب سے، جھوٹ بول کر، وسوسے ڈال کر، دنیا کے فوائد میں الجھا کر، غلط قسم کی توقعات اور وعدے دے کر انسان کو گمراہ کرسکتا ہے تو کرے مگر اسے یہ اختیار قطعاً نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو زبردستی کھینچ کر اللہ کی راہ سے ہٹا کر اپنی راہ پر ڈال دے۔ جیسا کہ پہلے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٢٢ میں گزر چکا ہے کہ شیطان خود اہل دوزخ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرے گا کہ میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا اور تمہیں اپنی طرف بلایا جس کی میرے پاس کوئی دلیل نہ تھی پھر بھی تم نے میری دعوت کو تسلیم کرلیا۔ حالانکہ میرا تم پر کچھ زور نہ تھا لہذا آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی عقلوں کا ماتم کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ ۔۔ : یہ پچھلی بات ہی کی وضاحت ہے اور مستثنیٰ منقطع ہے اور اگر ” عِبَادٌ“ سے مراد عام ہو تو مستثنیٰ متصل ہوگا، مطلب یہ کہ جو خود ہی بھٹکے ہوں اور جہالت کی بنا پر خود ہی تیری پیروی کرنا چاہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندوں پر شیطان کا تسلط نہ ہونے کے معنی :- (آیت) اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور منتخب بندوں پر شیطانی فریب کا اثر نہیں ہوتا مگر اسی واقعہ آدم میں یہ بھی مذکور ہے کہ آدم وحوا پر اس کا فریب چل گیا اسی طرح صحابہ کرام (رض) اجمعین کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا (آل عمران) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ پر بھی شیطان کا کید اس موقع میں چل گیا۔- اس لئے آیت مذکورہ میں اللہ کے مخصوص بندوں پر شیطان کا تسلط نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قلوب وعقول پر شیطان کا ایسا تسلط نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غلطی پر کسی وقت متنبہ ہی نہ ہوں جس کی وجہ سے ان کو توبہ نصیب نہ ہو یا کوئی ایسا گناہ کر بیٹھیں جس کی مغفرت نہ ہو سکے۔- اور مذکورہ واقعات اس کے منافی نہیں کیونکہ آدم وحوا (علیہما السلام) نے توبہ کی اور یہ توبہ قبول ہوئی اسی طرح حضرات صحابہ نے بھی توبہ کرلی تھی اور شیطان کے مکر سے جس گناہ میں ابتلاء ہوا وہ معاف کردیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ)- یعنی صرف ” مُخلَصین “ ہی کی تخصیص نہیں ہے بلکہ کسی انسان پر بھی تجھے اختیار نہیں ہوگا۔- (اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ )- جو لوگ ” غاوین “ میں سے ہوں گے ‘ خود ان کے اندر سرکشی ہوگی ‘ وہ خود اپنی نفس پرستی کی طرف مائل ہو کر تیری پیروی کریں گے ‘ ان کو لے جا کر تو گمراہی کے جس گڑھے میں چاہے پھینک دے اور جہنم کی جس وادی میں چاہے ان کو گرا دے ‘ مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن میرے کسی فرمانبردار بندے پر تجھے کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :24 ”اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں ( یعنی عام انسانوں ) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تو انہیں زبردستی نافرمان بنا دے ، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں انہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا ، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے ، جو لوگ اس راستے کو اختیار کرلیں گے ان پر شیطان کا بس نہ چلے گا ، انہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اس کے پھندے میں نہ پھسیں گے ۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا ، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اس بیان کا خلاصہ یہ ہوگا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریق کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا ۔ اللہ تعالی نے اس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی ، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے ۔ شیطان نے اپنے نوٹس سے ان بندوں کو مستثنی کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے ۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالی بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دست رس سے بچ جائے گا ۔ اللہ تعالی نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہوگا وہی تیری پیروی کرے گا ۔ بالفاظ دیگر جو بہکا ہوا ہوگا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہوگا جسے ہم خالص اپنا کرلیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: میرے بندوں سے مراد وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہوں، ایسے لوگوں پر شیطان کا زور نہ چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان انہیں بھی گمراہ کرنے کی کوشش تو کرے گا لیکن وہ اپنے اخلاص اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔