Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جنت میں کوئی بغض و کینہ نہ رہے گا دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ باغات ، نہروں اور چشموں میں ہوں گے ۔ ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر ، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی ۔ اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہو جائیں گے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بےکینہ ہو جائیں گے ۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لئے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے ۔ اشتر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت آپ کے پاس حضرت طلحہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ نے فرمایا سچ ہے ۔ کہا پھر تو اگر آپ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے ، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے آپ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا ، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ نے غصے سے فرمایا اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا ۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ نے غصے ہو کر جو چیز آپ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا ۔ این جرموز جو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا تو آپ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی ۔ اس نے آ کر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ نے فرمایا تیرے منہ میں مٹی ۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو انشاء اللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ کثیر کہتے ہیں میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں ، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں ۔ واللہ میں ابو بکر اور عمر سے بری ہوں ۔ اس وقت حضرت ابو جعفر نے فرمایا اگر میں ایسا کروں تو یقینا مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں ۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں ۔ ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر ۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا کہ یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابو بکر ، عمر عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن الی وقاص ، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ وہاں انہیں کوئی مشقت ، تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت ۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبہی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے ۔ اور آیت میں ہے وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ میں ارحم الراحمین ہوں ۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں ۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو ، اس وقت یہ آیتیں اتریں ۔ یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ۔ آپ بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ کے پاس آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا ، جو حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہو نے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دے دے ۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کرلیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” نَّ الْمُتَّقِيْنَ “ ” اِتَّقٰی “ باب افتعال سے اسم فاعل ” مُتَّقِیْ “ کی جمع ہے۔ مجرد ” وَقٰی یَقِيْ وَقَایَۃً “ ہے، بمعنی بچانا اور نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھنا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢) ۔- فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ : گمراہ لوگوں کے برے انجام کے ساتھ ہی متقی لوگوں کے بہترین انجام کا ذکر ہے اور یہ قرآن مجید کا عام انداز ہے کہ وہ دونوں پہلوؤں کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے۔ ” جَنّٰتٍ “ ” جَنَّۃٌ“ کی جمع ہے، گھنے درختوں کا باغ جو زمین کو چھپائے ہوئے ہو۔ ” جَنَّ یَجُنُّ “ کا معنی ہے چھپانا۔ ” وَّعُيُوْنٍ “ کا معنی ہے چشمے، مراد وہ چشمے ہیں جن سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں، یا الگ چشمے، کیونکہ چشموں کا حسن ایک الگ ہی چیز ہے۔ سورة دہر میں کافور اور زنجبیل کی آمیزش والے چشمے، سلسبیل نامی چشمے اور سورة مطففین میں تسنیم نامی چشمے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یاد رہے کہ جنت سے مراد صرف باغ ہی نہیں، بلکہ سونے چاندی کی اینٹوں کے مکانات اور ایک ایک موتی یا لعل سے بنے ہوئے میلوں لمبے اور اونچے خیموں کے ساتھ ملے ہوئے باغات ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں جنت کے اوصاف میں مذکور ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- بے شک خدا سے ڈرنے والے (یعنی اہل ایمان) باغوں اور چشموں میں (بستے) ہوں گے (خواہ اول ہی سے اگر معصیت نہ ہو یا معاف ہوگئی ہو اور خواہ سزائے معصیت بھگتنے کے بعد ان سے کہا جائے گا کہ) تم ان (جنات و عیون) میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو (یعنی اس وقت بھی ہر ناپسند چیز سے سلامتی ہے اور آئندہ بھی کسی شر کا اندیشہ نہیں) اور (دنیا میں طبعی تقاضے سے) ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب (ان کے دلوں سے جنت میں داخل ہونے کے قبل ہی) دور کردیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح (الفت و محبت سے) رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے وہاں ان کو ذرا بھی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ میرے بندوں کو اطلاع دیدیجئے کی میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں اور (نیز) یہ کہ میری سزا (بھی) درد ناک سزا ہے (تاکہ اس سے مطلع ہو کر ایمان اور تقوی کی رغبت اور کفر و معصیت سے خوف پیدا ہو)- معارف و مسائل :- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو سب سے پہلے ان کے سامنے پانی کے دو چشمے پیش کئے جائیں گے پہلے چشمہ سے وہ پانی پئیں گے تو ان سب کے دلوں سے باہمی رنجش جو کبھی دنیا میں پیش آئی تھی اور طبعی طور پر اس کا اثر آخر تک موجود رہا وہ سب دھل جائے گی اور سب کے دلوں میں باہمی الفت و محبت پیدا ہوجائے گی کیونکہ باہمی رنجش بھی ایک تکلیف و عذاب ہے اور جنت ہر تکلیف سے پاک ہے۔- اور حدیث صحیح میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی کینہ کسی مسلمان سے ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا اس سے مراد وہ کینہ اور بغض ہے جو دنیوی غرض سے اور اپنے قصد واختیار سے ہو اور اس کی وجہ سے یہ شخص اس کے درپے رہے کہ جب موقع پائے اپنے دشمن کو تکلیف اور نقصان پہونچائے طبعی انقباض جو خاصہ بشری اور غیر اختیاری ہے وہ اس میں داخل نہیں اسی طرح جو کسی شرعی بنیاد پر مبنی ہو ایسے ہی بغض و انقباض کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اہل جنت کے دلوں سے ہر طرح کا انقباض اور رنجش دور کردی جائے گی۔- اسی کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میں اور طلحہ اور زبیر انہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دلوں کا غبار جنت میں داخلہ کے وقت دور کردیا جائے گا۔ اشارہ ان اختلافات ومشاجرات کی طرف ہے جو ان حضرات اور حضرت علی کی درمیان پیش آئے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ 45؀ۭ- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والے یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے ساتھی باغوں اور پاکیزہ پانی کے چشموں میں بستے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن فرمائیں گے جنت میں سلام اور تحیت اور موت اور زوال سے امن وسلامتی کے ساتھ داخل ہو۔- شان نزول : (آیت ) ” ان المتقین “۔ (الخ)- ابوثعلبی نے سلمان فارسی (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے جس وقت یہ آیت کریمہ سنی۔ (آیت) ” وان جھنم “۔ (الخ) ( اور ان سب سے جہنم کا وعدہ ہے) تو کئی دن تک خوف سے بھاگے پھرے کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔- پھر ان کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (کہ ان سب سے جہنم کا وعدہ ہے) قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، اس نے تو میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :27 یعنی وہ لوگ جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیت کی زندگی بسر کی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani