Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی ہر دروازہ مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے خاص ہوگا۔ مثلاً ایک دروازہ مشرکوں کے لئے، ایک دروازہ دھریوں کے لئے۔ ایک زندیقوں، ایک زانیوں کے لئے۔ سود خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ یا سات دروازوں سے مراد سات طبق اور درجے ہیں۔ پہلا طبق یا درجہ جہنم ہے، دوسرا نطی۔ پھر حطمہ، پھر سعیر۔ پھر سقر، پھر حجیم، پھر ہاویہ، سب سے اوپر والا درجہ موحدین کے لئے ہوگا، جنہیں کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد یا سفارش پر نکال لیا جائے گا، دوسرے میں یہودی، تیسرے میں عیسائی، چوتھے میں صابی، پانچویں میں مجوسی۔ چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہونگے، سب سے اوپر والے درجے کا نام جہنم ہے اس کے بعد اس ترتیب سے نام ہیں۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] جہنم کے دروازے طبقے اور ان کے نام :۔ تقسیم شدہ حصہ سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی گناہ کے مجرم الگ کردیئے جائیں گے اور وہ سب ایک ہی دروازہ سے داخل ہوں گے۔ جیسے دہریے ایک دروازے سے، مشرک الگ دروازہ سے، منافق الگ دروازے سے وغیرہ وغیرہ۔ بالفاظ دیگر جہنم کے ہر طبقہ کے لیے الگ الگ دروازہ ہوگا اور یہ طبقات بھی سات ہی ہوں گے۔ ابن عباس (رض) کے نزدیک ان کے نام یہ ہیں۔ جہنم، سعیر، لظیٰ ، حطمہ، سقر جحیم اور ہاویہ اور جہنم کا لفظ ان سب طبقات کے لیے عام بھی ہے اور پہلے طبقہ کا نام بھی ہے۔ اور بعض لوگوں نے ان طبقات کے لیے گنہگاروں کی یوں تقسیم کی ہے۔ پہلے طبقہ جہنم میں گنہگار مسلمان۔ دوسرے طبقہ سعیر میں یہود، تیسرے طبقہ لظیٰ میں نصاریٰ ، چوتھے طبقے حطمہ میں صائبین، پانچویں طبقہ سقر میں مجوس، چھٹے طبقہ میں مشرک اور ساتویں طبقہ میں منافق جو سب سے نچلا طبقہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ واضح رہے کہ جہنم کے تو سات دروازے ہیں جبکہ جنت کے دروازے آٹھ ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ : یہ سات دروازے مختلف قسم کے گناہ گاروں کے لیے ہوں گے، جو جہنمیوں کو جہنم کے مختلف درجوں کی طرف پہنچائیں گے۔ قرآن مجید میں جہنم کے درجوں کو ” درکات “ کہا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) [ النساء : ١٤٥ ] ” بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ “ ابوطالب کے متعلق صحیح حدیث میں آیا ہے کہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچ رہی ہوگی۔ سمرہ (رض) سے روایت کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے : ( إِنَّ مِنْھُمْ مَنْ تَأْخُذُہُ النَّارُ إِلٰی کَعْبَیْہِ ، وَمِنْھُمْ مَنْ تَأْخُذُہُ إِلٰی حُجْزَتِہِ ، وَمِنْھُمْ مَنْ تَأْخُذُہُ إِلٰی عُنُقِہِ )” ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں آگ ٹخنوں تک پکڑے گی اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں ان کی کمر تک پکڑے گی اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جنھیں ان کی گردن تک پکڑے گی۔ “ [ مسلم، الجنۃ - وصفۃ نعیمھا، باب جہنم أعاذنا اللہ منھا : ٢٨٤٥ ]- لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ : تقسیم کیے ہوئے حصے سے مراد بدکاروں کے سات حصوں میں تقسیم شدہ مجرموں کا ایک حصہ ہے، یعنی جس طرح ایک خاص عمل والے لوگ جنت میں ایک خاص دروازے سے داخل ہوں گے، اسی طرح برے عمل والے لوگ بھی اپنے اعمال کے مطابق جہنم کے مختلف دروازوں سے داخل ہوں گے، جیسے اوپر ذکر ہوا : (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) [ النساء : ١٤٥ ] ” بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ “ شاہ عبدالقادر (رض) فرماتے ہیں : ” شاید بہشت کا ایک دروازہ زیادہ اس لیے ہے کہ بعض موحدین صرف اللہ کے فضل سے جنت میں جائیں گے، بغیر عمل کے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

جہنم کے سات دروازے :- (آیت) لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ ۔ امام احمد ابن جریر طبری اور بیہقی نے بروایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکھا ہے کہ جہنم کے سات دروازے اوپر نیچے سات طبقات کے اعتبار سے ہیں اور بعض حضرات نے ان کو عام دروازوں کی طرح قرار دیا ہے ہر دروازہ خاص قسم کے مجرمین کے لئے مخصوص ہوگا (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ 44؀ۧ- سبعۃ ابواب۔ دوزخ کے سات طبقے ہیں۔ ہر ایک طبقہ کا ایک ایک دروازہ ہے۔ ان سات طبقوں کے نام یہ ہیں۔ جہنم ۔ لظیٰ ۔ الحطمۃ السعیر ۔ السقر۔ الجحیم۔ الہاویہ۔- جزء - جُزْءُ الشیء : ما يتقوّم به جملته، كأجزاء السفینة، وأجزاء البیت، وأجزاء الجملة من الحساب قال تعالی: ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة 260] ، وقال عزّ وجل :- لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ، أي : نصیب، وذلک جزء من الشیء، وقال تعالی: وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف 15] ، وقیل : ذلک عبارة عن الإناث، من قولهم : أَجْزَأَتِ المرأة : أتت بأنثی «1» .- وجَزَأَ الإبل : مَجْزَءاً وجَزْءاً : اکتفی بالبقل عن شرب الماء . وقیل : اللّحم السمین أجزأ من المهزول «2» ، وجُزْأَة السکين : العود الذي فيه السیلان، تصوّرا أنه جزء منه .- ( ج ز ء)- جزء الشئی چیز کا وہ ٹکڑا جس سے وہ چیز مل کر بنے ۔ جیسے اجزاء السفینۃ اجزاء البیت اور حساب میں اجزا الجملۃ ( یعنی کل مجموعہ کے اجزاء ) وغیرہ محاورات بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة 260] پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہرا یک پہاڑ پر رکھو اور ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں ایک حصہ تقسیم کردیا گیا ہے ۔ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف 15] اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جزاء ا سے مراد انا ث ہیں میں انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا اور یہ اجزات المرءۃ کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی مادیتہ اولاد کو جنم دینا کے ہیں ۔ جزء الابل مجزء وجزا اونٹ ترگھاس کھانے کی وجہ سے پانی سے بےنیاز ہوگئے محاورہ ہے :۔ الحم السمین اجزء من المھزول موٹا گوشت وبلے گوشت سے زیادہ کفایت کرنے والا ہوتا ہے ۔ جزءۃ السلین چھری کا وستہ کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ)- جہنم کے ہر دروازے میں سے داخل ہونے والے جنوں اور انسانوں کو مخصوص کردیا گیا ہے۔ ممکن ہے دروازوں کی یہ تقسیم و تخصیص گناہوں کی نوعیت کے اعتبار سے ہو۔ واللہ اعلم - اہل جہنم کے ذکر کے بعد اب اہل جنت کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ موازنے اور فوری تقابل ( ) کا یہ انداز و اسلوب قرآن میں ہمیں جگہ جگہ ملتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :26 جہنم کے یہ دروازے ان گمراہیوں اور معصیتوں کے لحاظ سے ہیں جن پر چل کر آدمی اپنے لیے دوزخ کی راہ کھولتا ہے ۔ مثلاً کوئی دہریت کے راستے سے دوزخ کی طرف جاتا ہے ، کوئی شرک کے راستہ سے ، کوئی نفاق کے راستہ سے ، کوئی نفس پرستی اور فسق و فجور کے راستہ سے ، کوئی ظلم و ستم اور خلق آزاری کے راستہ سے ، کوئی تبلیغ ضلالت اور اقامت کفر کے راستہ سے ، اور کوئی اشاعت فحشاء و منکر کے راستہ سے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani