Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی دنیوی زندگی کی طرح اپنا پیٹ پالنے کے لیے وہاں کچھ محنت و مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ ہر مطلوبہ چیز طلب کرنے پر فوراً حاضر کردی جائے گی۔ انھیں ان چیزوں کے حصول کے لیے نقل مکانی کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اور ان کے لیے یہ سب نعمتیں دائمی ہوں گی اور ان کی زندگی بھی دائمی زندگی ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ : دنیا میں کوئی شخص دکھ، مصیبت، مشقت اور تھکن سے خالی نہیں، بلکہ یہ ساری زندگی ہی محنت اور مشقت کی ہے، یہاں زیادہ سے زیادہ خوشی اور لذت کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی مشقت، محنت، تھکن یا غم ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بلد کے شروع میں کئی قسمیں کھا کر فرمایا : (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ ) [ البلد : ٤ ] ” بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے “ اور سورة انشقاق میں فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ ) [ الانشقاق : ٦ ] ” اے انسان بیشک تو مشقت کرتے کرتے اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، سخت مشقت، پھر اس سے ملنے والا ہے۔ “ جب کہ جنت میں نہ کوئی دکھ ہوگا نہ تھکاوٹ۔ ابوسعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُنَادِيْ مُنَادٍ إِنَّ لَکُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوْتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَھْرَمُوْا أَبَدًا، وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ عَزَّوَجَلَّ : (وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأعراف : ٤٣ ] )” ایک منادی ندا دے گا (اے جنت والو ) بیشک تمہارے لیے یہ ہوگا کہ تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے اور تمہارے لیے یہ ہوگا کہ تم زندہ رہو گے کبھی تمہیں موت نہیں آئے گی اور تمہارے لیے یہ ہوگا کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے اور تمہارے لیے طے ہوچکا کہ تم خوش حال رہو گے کبھی تنگی اور تکلیف نہیں اٹھاؤ گے۔ “ چناچہ یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ” اور انھیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم اس کی وجہ سے بنائے گئے ہو جو تم کیا کرتے تھے۔ “ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب في دوام نعیم أہل الجنۃ۔۔ : ٢٢؍٢٨٣٧ ]- وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ : عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا صَارَ أَھْلُ الْجَنَّۃِ إِلَی الْجَنَّۃِ ، وَصَارَ أَھْلُ النَّارِ إِلَی النَّارِ ، أُتِيَ بالْمَوْتِ حَتّٰی یُجْعَلَ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ، ثُمَّ یُذْبَحُ ، ثُمَّ یُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ لَا مَوْتَ ، یَا أَھْلَ النَّارِ لَا مَوْتَ ، فَیَزْدَادُ أَھْلُ الْجَنَّۃِ فَرَحًا إِلٰی فَرَحِھِمْ ، وَیَزْدَادُ أَھْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلٰی حُزْنِھِمْ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب النار یدخلھا الجبارون۔۔ : ٤٣؍٢٨٥٠ ] ” جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں پہنچ جائیں گے تو موت کو (ایک مینڈھے کی شکل میں) لایا جائے گا اور اسے جنت اور جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا، پھر اسے ذبح کردیا جائے گا، پھر ایک منادی اعلان کرے گا اے جنت والو اب موت نہیں اور اے آگ والو اب موت نہیں، تو جنت والے اپنی خوشی کے ساتھ اور زیادہ خوش ہوجائیں گے اور آگ والے اپنے غم کے ساتھ اور زیادہ غم زدہ ہوجائیں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ ۔ اس آیت سے جنت کی دو خصوصیات معلوم ہوئیں اول یہ کہ کسی کو کبھی تکان اور ضعف محسوس نہ ہوگا بخلاف دنیا کے کہ یہاں محنت ومشقت کے کاموں سے تو ضعف وتکان ہوتا ہی ہے خاص آرام اور تفریح سے بھی کسی نہ کسی وقت آدمی تھک جاتا ہے اور ضعف محسوس کرنے لگتا ہے خواہ وہ کتنا ہی لذیذ کام اور مشغلہ ہو - دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو آرام و راحت اور نعمتیں وہاں کسی کو مل جائیں گی پھر وہ دائمی ہوں گی نہ وہ نعمتیں کبھی کم ہوں گی اور نہ ان میں سے اس شخص کو نکالا جائے گا سورة ص میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ یعنی یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور اس آیت میں فرمایا (آیت) وَمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ یعنی ان کو کبھی ان نعمتوں راحتوں سے نکالا نہیں جائے گا بخلاف معاملات دنیا کے کہ یہاں اگر کوئی کسی کو بڑے سے بڑا انعام و راحت دے بھی دے تو یہ خطرہ ہر وقت لگا رہتا ہے کہ جس نے یہ انعامات دئیے ہیں وہ کسی وقت ناراض ہو کر یہاں سے نکال دے گا۔- ایک تیسرا احتمال جو یہ تھا کہ نہ جنت کی نعمتیں ختم ہوں اور نہ اس کو وہاں سے نکالا جائے مگر وہ خود ہی وہاں رہتے رہتے اکتا جائے اور باہر جانا چاہے قرآن عزیز نے اس احتمال کو بھی ایک جملہ میں ان الفاظ سے ختم کردیا ہے کہ (آیت) لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا۔ یعنی یہ لوگ بھی وہاں سے پلٹ کر آنے کی کبھی خواہش نہ کریں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ 48؀- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - نصب - والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی:- عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] .- ( ن ص ب ) نصب - اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ )- اہل جنت کو جنت میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے نکالے جانے کا کھٹکا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس میں انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :29 اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ یقال لا ھل الجنۃ ان لکم ان تصحوا ولا تمرضوا ابدًا ، و ان لکم ان تعیشو ا فلا تمو تو ا ابدا ، و ان لکم ان تشبّوا ولا تھرموا ابدًا ، و ان لکم ان تقیمو ا فلا تظعنو ا ابدًا ۔ یعنی” اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے ، کبھی بیمار نہ پڑو گے ۔ اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے ، کبھی موت تم کو نہ آئے گی ۔ اور اب تم ہمیشہ جوان رہو گے ، کبھی بڑھاپا تم پر نہ آئے گا ۔ اور اب تم ہمیشہ مقیم رہو گے ، کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہوگی“ ۔ اس کی مزید تشریح ان آیات و احادیث سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں انسان کو اپنی معاش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی ، سب کچھ اسے بلا سعی و مشقت ملے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani