نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ۔۔ : ” نَبَأٌ“ خاص اور اہمیت والی خبر کو کہتے ہیں۔ ” نَبِّئْ “ باب تفعیل سے امر ہے، یعنی یہ بات اچھی طرح بتادو ، تاکہ وہ امید بھی رکھیں اور خوف بھی، کیونکہ ایمان ان دونوں کے درمیان ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ یَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللّٰہِ مِنَ الْعُقُوْبَۃِ ، مَا طَمِعَ بِجَنَّتِہِ أَحَدٌ، وَلَوْ یَعْلَمُ الْکَافِرُ مَا عِنْدَ اللّٰہِ مِنَ الرَّحْمَۃِ ، مَا قَنِطَ مِنْ جَنَّتِہِ أَحَدٌ ) [ مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی۔۔ : ٢٧٥٥ ] ” اگر مومن جان لے کہ اللہ کے پاس کتنی عقوبت ہے تو کوئی اس کی جنت کا طمع نہ رکھے اور اگر کافر جان لے کہ اللہ کے پاس کس قدر رحمت ہے تو کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔ “ ان آیات میں رحمت و مغفرت کا بیان پہلے اور عذاب الیم کا ذکر بعد میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اصل اور غالب صفت رحمت ہے، عذاب تو محض عدل کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (١٥٦) کی تفسیر۔ - یہاں رحمت کے اظہار کے لیے پہلے ” عِبَادِيْٓ“ سے خطاب، پھر ” أَنَّ “ ، ” اَنَا “ ضمیر فصل اور ” الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ “ کو الف لام کے ساتھ لا کر تاکید پر تاکید فرمائی، دوسری آیت میں ” ھُوَ “ ضمیر فصل اور ” اَلْعَذَاب “ کو معرف باللام لا کر تاکید فرمائی۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ میری صفات رحمت یہ ہیں اور ان کا مالک میرے سوا کوئی نہیں، دوسری آیت میں فرمایا اور میرے عذاب کی صفت یہ ہے، یہ نہیں فرمایا : ” وَإِنِّيْ أَنَا الْمُعَذِّبُ ۔۔ “ کہ میں ہی ایسا عذاب دینے والا ہوں، بلکہ اپنے عذاب کی صفت بیان فرمائی کہ میرا عذاب ہی ایسا ہے جو عذاب الیم ہے۔- 3 یہ آیات تمہید ہیں ان واقعات کی جو آگے آ رہے ہیں، جن میں فرشتوں کی ایک جماعت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہوا اور انھی کے ذریعے سے اس کے عذاب الیم کا ظہور ہوا۔
نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49ۙ- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(٤٩) آپ میرے بندوں کو خبر کردیجیے کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں جو کہ توبہ پر مرے اور جو توبہ نہ کرے اور کفر ہی کی حالت میں مرجائے تو اس کے لیے میری سزا بھی بڑی درد ناک ہے۔- شان نزول : (آیت ) ” نبیء عبادی انی “۔ (الخ)- امام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے اصحاب کی ایک جماعت پر سے گزرہوا وہ ہنس رہے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم ہنس رہے ہو حالانکہ تمہارے سامنے جنت دوزخ کا تذکرہ ہوچکا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ آپ میرے بندوں کو اطلاع دے دیجیے کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں اور یہ کہ میری سزا درد ناک سزا ہے۔- نیز ابن مردویہ نے دوسرے طریقہ سے ایک صحابی سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس اس درازہ سے تشریف لائے جس سے بنو شیبہ آیا کرتے تھے اور ارشاد فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں ہنستا ہوا دیکھ رہا ہوں پھر آپ چل دیے، اس کے بعد پھر واپس لوٹ کر آئے۔- اور فرمایا کہ جب میں پتھر کے پاس پہنچا تو میرے پاس جبریل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو مایوس مت کرو بلکہ ان کو اطلاع دے دو کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں (الخ)