62۔ 1 یہ فرشتے حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے لئے بالکل انجان تھے، اس لئے انہوں نے ان سے اجنبیت اور بیگانگی کا اظہار کیا۔
[٣٢] سیدنا لوط اور آل لوط کو نکل جانے کا حکم اور ہدایات :۔ یہ فرشتے جب لوط (علیہ السلام) کے ہاں آئے تو خوبصورت اور بےریش نوجوانوں کی صورت میں آئے۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کے یہ مہمان بالکل اجنبی مہمان تھے۔ آپ کو بھی ان کی آمد سے خطرہ محسوس ہوا لیکن آپ کے خطرہ کی نوعیت بالکل الگ تھی۔ آپ اپنی قوم کا حال بھی جانتے تھے اور یہ نوجوان لڑکے بہت خوبصورت تھے لہذا دل ہی دل میں آپ پیش آنے والے حالات سے سخت خوفزدہ تھے۔ فرشتوں نے آپ کو اصل صورت حال بتلا کر آپ کے اس خوف کو دور کردیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اس مجرم قوم کے گناہوں کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے۔ لہذا ہم ان کے مکمل استیصال کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اب آپ ایسا کریں کہ جب گہری رات چھا جائے تو آپ اپنے گھر والوں اور ایمان دار لوگوں کو ساتھ لے کر یہاں سے نکل جائیں۔ البتہ تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ کیونکہ وہ ان لوگوں کے گناہوں میں برابر کی شریک ہے۔ صبح دم ان پر عذاب آنے والا ہے اور جب تم نکلو تو خود سب سے پیچھے رہو اور تم لوگوں میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے کیونکہ یہ نہ تو تماشا دیکھنے کا وقت ہے اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا بلکہ اگر کوئی آدمی پیچھے کھڑا رہ گیا تو ممکن ہے اسے بھی کچھ گزند پہنچ جائے۔
قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ : جن کی جان پہچان نہ ہو، اجنبی، اُوپرے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح لوط (علیہ السلام) بھی انھیں پہچان نہ سکے۔ اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ دوسری ساری مخلوق کی طرح یہ دونوں جلیل القدر انبیاء بھی عالم الغیب نہ تھے، ورنہ وہ ان کے آنے سے پہلے ہی انھیں جانتے ہوتے اور ان کے آنے سے باخبر ہوتے، بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے ہی معلوم ہوتا کہ مجھے اتنی عمر میں اسحاق عطا ہوں گے اور لوط (علیہ السلام) کو پہلے ہی اپنی قوم کا انجام معلوم ہوتا، مگر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے پر صبر، آگ میں ڈالے جانے پر بھی استقامت کا اظہار، جبار مصر کی زیادتی کی آزمائش پر صبر، ہاجرہ اور اسماعیل کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑنے پر صبر، غرض ان کی کوئی آزمائش، آزمائش نہیں رہے گی، کیونکہ اگر پہلے علم ہو کہ ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا تو ہر شخص آگ میں کود سکتا ہے اور بیٹے کی گردن پر چھری چلانے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔ شیعہ حضرات نے تو انبیاء کے علاوہ اپنے بارہ اماموں کو ہر گزری ہوئی اور آنے والی بات جاننے والا قرار دیا۔ دیکھیے ان کی کتاب ” الکافی “ کی فہرست، جسے وہ اتنا معتبر سمجھتے ہیں جتنا اہل سنت صحیح بخاری کو۔
قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ 62- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔
آیت ٦٢ (قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ )- حضرت لوط نے دیکھا کہ یہ بالکل اجنبی لوگ ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں اور کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے ؟
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :36 یہاں بات مختصر بیان کی گئی ہے ۔ سورہ ہود میں اس کی تفصیل یہ دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے آنے سے حضرت لوط بہت گھبرائے اور سخت دل تنگ ہوئے اور ان کو دیکھتے ہی اپنے دل میں کہنے لگے کہ آج بڑا سخت وقت آیا ہے ۔ اس گھبراہٹ کی وجہ جو قرآن کے بیان سے اشارۃ اور روایات سے صراحۃ معلوم ہوتی ہے کہ یہ فرشتے نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے ہاں پہنچے تھے ۔ اور حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کی بدمعاشی سے واقف تھے ، اس لیے آپ سخت پریشان ہوئے کہ آئے ہوئے مہمانوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکتا ، اور انہیں ان مدمعاشوں سے بچانا بھی مشکل ہے ۔
21: حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کی بد فطرتی سے واقف تھے کہ یہ لوگ اجنبیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے گھبراہٹ کا اظہار کریا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی اس بد نہاد قوم کے مختصر تعارف کے لیے دیکھئے۔ سورۃ اعراف آیت 80 پر ہمارا حاشیہ۔