63۔ 1 یعنی عذاب الٰہی، جس میں تیری قوم کو شک ہے کہ وہ آ بھی سکتا ہے ؟
قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ ۔۔ : ” اِمْتِرَاءٌ“ سے مضارع معلوم ہے، ایسا شک جو انسان کو ایسی بات پر جھگڑنے کے لیے آمادہ کرے جس کی حقیقت کچھ نہ ہو، بلکہ وہ صرف وہم و گمان پر مبنی ہو۔ (طنطاوی) اس لیے اس میں جھگڑے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو تسلی دینے کے لیے یہ بات کہی کہ ہم تمہیں پریشان کرنے کے لیے نہیں آئے، بلکہ وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ شک کرتے اور جھگڑتے رہے ہیں اور واقعی ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ ” بِالْحَقِّ “ سے مراد عذاب ہے، جیسا کہ فرمایا : (مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ) [ الحجر : ٨ ] ” ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق (یعنی عذاب) کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیے گئے نہیں ہوتے۔ “
قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ 63- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34]- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں ۔
(٦٣۔ ٦٤) ہم تم اور تمہارے سلام کو نہیں پہنچانتے (پریشان ہوئے کہ قوم ان کے ساتھ کیا کرے کیوں کہ یہ صورت آدمی تھے) اس لیے فرمایا کہ تم اجنبی معلوم ہوتے ہو، فرشتے بولے ہم آپ کے پاس عذاب لے کر آئے ہیں، جس میں یہ لوگ شک کیا کرتے تھے اور ہم آپ کے پاس عذاب کی خبر لائے ہیں، اور ہم اپنی اس بات میں بالکل سچے ہیں کہ عذاب ان پر نازل ہوگا۔
آیت ٦٣ (قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ )- حضرت لوط جب اپنی قوم کو متنبہ کرتے تھے کہ اگر تم لوگ شرک سے اور اس فعل خبیث سے باز نہیں آؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا ‘ تو وہ آپ کا مذاق اڑاتے تھے ‘ کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ ان پر واقعی عذاب آجائے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ آج ہم وہی عذاب لے کر آگئے ہیں جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں تھے۔