Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قوم لوط کی خر مستیاں قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو ، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو ۔ اس وقت خود حضرت لوط علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں ۔ جیسے کہ سورہ ہود میں ہے ۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں ۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصو صاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو ۔ آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہو جاؤ ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس سے منع کر چکے ہیں ۔ تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں ، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں ۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی ۔ سکرۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے ، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 ادھر تو حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا یہ فیصلہ ہو رہا تھا۔ ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر میں خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور خوشی خوشی حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو ان کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان سے بےحیائی کا ارتکاب کر کے اپنی تسکین کرسکیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] غنڈوں کا سیدنا لوط کے گھر میں گھس آنا :۔ اہل سدوم لواطت کے معاملہ میں اس قدر بےحیا اور بیباک ہوچکے تھے کہ سیدنا لوط کا بھی کچھ لحاظ نہ کرتے تھے بلکہ الٹا انھیں یہ کہتے تھے کہ اگر تم اتنے پاکباز بنتے ہو تو ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ چناچہ یہ خوبصورت لڑکے لوط کے گھر پہنچے ہی تھے کہ آپ کی بیوی نے مخبری کردی اور وہ دیوار پھاند کر آپ کے گھر میں گھس آئے۔ سیدنا لوط نے ان کی منت کرتے ہوئے کہ دیکھو یہ میرے مہمان ہیں ان پر دست درازی کرکے مجھے رسوا نہ کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : ” الْمَدِيْنَةِ “ کا ترجمہ ” اس شہر “ الف لام برائے عہد کی و جہ سے کیا ہے۔ مفسرین نے اس کا نام ” سدوم “ بتایا ہے۔ قوم لوط کا عمل کرنے والوں کو بہت سی زبانوں میں ” سدومی “ کہا جاتا ہے، اس لیے عربی یا اردو میں اس کے لیے ” لوطی “ کا جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مناسب نہیں۔ اس میں لوط (علیہ السلام) کی ایک طرح سے توہین ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ بروں کے ساتھ رہنے میں بھی بدنامی ہے، خواہ کتنا نیک ہو، اب لوط (علیہ السلام) کے اس بدبخت قوم کے پیغمبر ہونے کے باعث کتنے برے فعل کی نسبت ان کے مبارک نام کی طرف کی جاتی ہے۔ - يَسْـتَبْشِرُوْنَ : ” بَشَرَ “ (ض، س) ، ” أَبْشَرَ “ اور ” اِسْتَبْشَرَ “ تینوں کا معنی خوش ہونا ہے، صرف حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس لیے معنی کیا گیا ہے ” بہت خوش ہو رہے تھے “ یعنی لوط (علیہ السلام) کے گھر نہایت خوبصورت لڑکوں کے آنے کی خبر سن کر نہایت خوش خوش بےاختیار دوڑتے ہوئے آئے۔ (دیکھیے ہود : ٧٨) اس سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ شرم و حیا سے خالی ہو کر کتنی پستی میں گر چکے تھے۔ واضح رہے کہ ” وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ “ میں ” واؤ “ ترتیب کے لیے نہیں، بلکہ صرف واقعہ کے مختلف حصوں کو ملانے کے لیے ہے، کیونکہ اگر پہلے وحی آچکی ہوتی اور لوط (علیہ السلام) مہمانوں کو جان چکے ہوتے کہ یہ فرشتے ہیں تو انھیں پریشان ہونے کی، قوم کی منتیں کرنے کی اور اپنی یعنی قوم کی بیٹیاں پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ انبیاء ( علیہ السلام) غیب دان نہیں ہوتے، انھیں صرف وہی معلوم ہوتا ہے جو انھیں وحی کے ذریعے سے بتادیا جائے۔ سورة ہود ( ٧٧ تا ٨١) میں لوط (علیہ السلام) کی پریشانی کا نقشہ اور فرشتوں کا انھیں تسلی دینا ملاحظہ فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ 67؀- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ )- حضرت لوط کے ہاں خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر بد قماش قسم کے لوگوں نے خوشی خوشی آپ کے گھر پر یلغار کردی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :39 “اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی ۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آجانا اس بات کے لیے کافی تھا کہ اس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم امنڈ آئے اور علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کر دے ۔ ان کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اٹھاتا ، اور نہ ان کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی ۔ حضرت لوط علیہ السلام جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہوگا ۔ تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں ان کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیلامی مسافر ان کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ راستہ میں شام ہوگئی اور اسے مجبورا ان کے شہر سدوم میں ٹھیرنا پڑا ۔ اس کے ساتھ اپنا زار راہ تھا ۔ کسی سے اس نے میزبانی کی درخواست نہ کی ۔ بس ایک درخت کے نیچے اتر گیا ۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے اپنے گھر لے گیا ۔ رات اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا ۔ اس نے شور مچایا ۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی ۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اسے نکال باہر کیا ۔ ایک مرتبہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہ نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام العیزر کو سدوم بھیجا ۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے ۔ الیعزر نے اسے شرم دلائی کہ تم بےکس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو ۔ مگر جواب میں سربازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا ۔ ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے ان کے شہر میں آیا اور کسی نے اسے کھانے کو کچھ نہ دیا ۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی نے اسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا ۔ اس پر حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے ۔ اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم ، دھوکہ باز اور بعد معاملہ تھے ۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا ۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے راٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا ۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مرجاتا اور یہ اس کو کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے ۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسرعام لوٹ لیے جاتے اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا ۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا ۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوط علیہ السلام کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی ۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ۔ ( وہ پہلے سے بہت برے برے کام کر رہے تھے ) اور اَءِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( تم مردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ہو ، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہو؟ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: یہ فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اس لیے جیسا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اندیشہ تھا۔ یہ لوگ اپنی ہوس کو پوری کرنے کے شوق میں خوشی مناتے ہوئے آئے۔