72۔ 1 اللہ نبی سے خطاب فرما کر، ان کی زندگی کی قسم کھا رہا ہے، جس سے آپ کا شرف و فضل واضح ہے۔ تاہم کسی اور کے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حاکم مطلق ہے، وہ جس کی چاہے قسم کھائے، اس سے کون پوچھنے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح شراب کے نشے میں دھت انسان کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے، اسی طرح یہ اپنی بد مستی اور گمراہی میں اتنے سرگرداں تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی اتنی معقول بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ پائی۔
[٣٧] غنڈوں کی بدمستی :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسول اللہ کی جان سے زیادہ اکرم و افضل کوئی جان پیدا نہیں کی۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی جان عزیز کے علاوہ کسی اور جان کی قسم کھائی ہو۔ یہی قسم کھا کر اللہ نے رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اس وقت ان خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر وہ اپنی شہوت رانی کی مستی میں اندھے اور دیوانے بنے ہوئے تھے کہ ایسا شکار شاید انھیں بعد میں کبھی بھی میسر نہ آسکے۔
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ ۔۔ : ” عَمْرٌ“ عین کے فتحہ کے ساتھ ” عُمْرٌ“ ہی کی ایک لغت ہے، اس کا معنی دنیا میں زندگی کی مدت ہے۔ قسم کے وقت ” عین “ ہمیشہ مفتوح ہوتا ہے۔ لام ابتدا کا ہے جو قسم کے معنی میں ہے۔ ” عَمْرٌ“ مبتدا ہے اور اس کی خبر ” قَسْمِیْ “ یا ” یَمِیْنِیْ “ ہے جو لازماً حذف ہوتی ہے، یعنی مجھے تیری عمر کی قسم۔ ” سَکْرَۃٌ“ نشے میں ہونا، مدہوش ہونا۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی قسم کھائی اور آپ کی اتنی تکریم فرمائی کہ آپ کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔ لوط (علیہ السلام) کے قصے کے درمیان یہ جملہ معترضہ ہے، جس سے ان کا گمراہی سے کسی صورت باز نہ آنا بیان کرنا مقصود ہے۔ قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ اے نبی آپ کی پوری پاکیزہ زندگی اور عفت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ جو اس کے بالکل برعکس چلنے والے تھے وہ دراصل ہوش میں نہ تھے اور اسی مدہوشی میں ایسے بھٹکے پھرتے تھے کہ ان کے لیے راہ راست پر آنا ممکن ہی نہ تھا۔ - ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہ فرشتوں کا کلام ہے اور انھوں نے لوط (علیہ السلام) کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔ ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھانا منع ہے، صحیح احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے۔ قسم کے متعلق مفصل بات ان شاء اللہ آگے کسی مقام پر ہوگی۔
معارف و مسائل :- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصی اعزازو اکرام :- قولہ لَعَمْرُكَ ۔ روح المعانی میں جمہور مفسرین کا قول یہ نقل کیا ہے کہ لَعَمْرُكَ کے مخاطب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی حیات کی قسم کھائی ہے بہیقی نے دلائل النبوۃ میں اور ابو نعیم وابن مردویہ وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات و کائنات میں کسی کو محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ عزت و مرتبہ عطا نہیں فرمایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغبر یا فرشتے کی حیات پر کبھی قسم نہیں کھائی اور اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر وحیات کی قسم کھائی ہے جو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتہائی اعزازو اکرام ہے۔- غیر اللہ کی قسم کھانا :- کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھائے کیونکہ قسم اس کی کھائی جاتی ہے جس کو سب سے زیادہ بڑا سمجھا جائے اور ظاہر ہے سب سے زیادہ بڑا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔- حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی ماؤں اور باپوں کی اور بتوں کی قسم نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کی قسم بھی صرف اس وقت کھاؤ جب تم اپنے قول میں سچے ہو (رواہ ابو داؤد والنسائی عن ابی ہریرۃ)- اور صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ اپنے باپ کی قسم کھا رہے ہیں تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکار کر فرمایا کہ خبردار رہو اللہ تعالیٰ باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے جس کو حلف کرنا ہو اللہ کے نام کا حلف کرے ورنہ خاموش رہے (قرطبی مائدہ)- لیکن یہ حکم مخلوقات کے لئے ہے اللہ جل شانہ خود اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں کی قسم کھاتے ہیں یہ ان کے لئے مخصوص ہے جس کا مقصد کسی خاص اعتبار سے روکنے کا جو سبب ہے وہ یہاں موجود نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اس کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنی کسی مخلوق کو سب سے بڑا اور افضل سمجھیں کیونکہ علی الاطلاق بڑائی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے۔
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 72- عمر - والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ- [ البقرة 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم،- ( ع م ر ) العمارۃ - اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ - سكر - السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر :- 237-- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة- «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] ، والسَّكَرُ :- اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا - [ الحجر 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ- ( س ک ر )- الکرس ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے - کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔- عمه - الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] .- ( ع م ہ ) العمۃ - کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔
(٧٢) اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی قسم کھا کر فرماتا ہے یا یہ کہ آپ کے دین کی قسم حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اپنی جہالت میں مدہوش تھی ان کو کچھ نہیں نظر آرہا تھا۔
آیت ٧٢ (لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ )- عمہ کے مادہ میں دل کے اندھے پن کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی ان لوگوں کے دل بھلائی اور برائی کی تمیز سے بالکل عاری ہوگئے تھے۔