71۔ 1 یعنی ان سے تم نکاح کرلو یا پھر اپنی قوم کی عورتوں کو اپنی بیٹیاں کہا، تم عورتوں سے نکاح کرلو یا جن کے حبالہ عقد میں عورتیں ہیں، وہ ان سے اپنی خواہش پوری کریں۔
[٣٦] سیدنا لوط کی بیٹیاں :۔ اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو آیت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کو ان کے نکاح میں دینے پر تیار ہوگئے حالانکہ پہلے یہی لوگ ان بیٹیوں کا رشتہ طلب کرتے تھے اور آپ نے ان لوگوں کی بدکرداری دیکھ کر رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا اور دوسرا مطلب ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے لہذا آپ قوم کی بیٹیوں کے بھی روحانی باپ تھے اور آپ نے انھیں کہا یہ تھا کہ تمہارے گھروں میں جو تمہاری بیویاں ہیں وہ بھی میری بیٹیاں ہیں۔ اگر اتنی ہی تم پر شہوت غالب آرہی ہے تو ان سے پوری کرلو۔ - اس آیت سے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ آپ نے بدکاری کے لیے اپنی بیٹیاں پیش کردی تھیں۔ کیونکہ سیدنا لوط جس بدی کے خلاف جہاد کر رہے تھے اسی طرح کی ایک دوسری برائی کا خود ارتکاب کیسے کرسکتے تھے ؟ بالخصوص اس صورت میں کہ آپ اللہ کے نبی تھے۔
قَالَ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِيْٓ : اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة ہود کی آیت (٧٨) کی تفسیر۔
قَالَ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِيْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ 71ۭ- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
(٧١) حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا یہ میری بیٹیاں اور میری قوم کی بیٹیاں ہیں اگر تم میرے کہنے سے شادی کرو تو میں تم سب کی شادی کر دوں
آیت ٧١ (قَالَ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِيْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ )- قبل ازیں اس فقرے کی وضاحت ہوچکی ہے۔ یعنی میری قوم کی بیٹیاں جو تمہارے گھروں میں موجود ہیں ان کی طرف رجوع کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے لیے فطری ساتھی بنایا ہے۔ اس فقرے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے اتمام حجت کے لیے ان میں سے دو سرداروں کو یہاں تک کہہ دیا ہو کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو میں اپنی بیٹیوں کا نکاح تم سے کیے دیتا ہوں۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :40 اس کی تشریح سورہ ہود کے حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کی جا چکی ہے ۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آچکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بے پروا ہو کر اس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے ۔ اس موقع پر ایک بات کو صاف کر دینا ضروری ہے ۔ سورہ ہود میں واقعہ جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اس میں یہ تصریح ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو بدمعاشوں کے اس حملہ کے وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں ۔ وہ اس وقت تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ چند مسافر لڑکے ہیں جو ان کے ہاں آکر ٹھیرے ہیں ۔ انہوں نے اپنے فرشتہ ہونے کی حقیقت اس وقت کھولی جب بدمعاشوں کا ہجوم مہمانوں کی قیامگاہ پر پل پڑا اور حضرت لوط علیہ السلام نے تڑپ کر فرمایا لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ ( کاش مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت حاصل ہوتی یا میرا کوئی سہارا ہوتا جس سے میں حمایت حاصل کرتا ) ۔ اس کے بعد فرشتوں نے ان سے کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور ہمیں ان سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دو ۔ واقعات کی اس ترتیب کو نگاہ میں رکھنے سے پورا اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے یہ الفاظ کس تنگ موقع پر عاجز آکر فرمائے تھے ۔ اس سورے میں چونکہ واقعات کو ان کی ترتیب وقوع کے لحاظ سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے ، بلکہ اس خاص پہلو کو خاص طور پر نمایاں کرنا مقصود ہے جسے ذہن نشین کرنے کی خاطر ہی یہ قصہ یہاں نقل کیا گیا ہے ، اس لیے ایک عام ناظر کو یہاں یہ غلط فہمی پیش آتی ہے کہ فرشتے ابتدا ہی میں اپنا تعارف حضرت لوط علیہ السلام سے کرا چکے تھے اور اب اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے ان کی یہ ساری فریاد و فغاں محض ایک ڈرامائی انداز کی تھی ۔
24: کسی نبی کی امت میں جتنی عورتیں ہوتی ہیں، وہ اس نبی کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان بد قماش لوگوں کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہاری عورتیں جو میری روحانی بیٹیاں ہیں، تمہارے گھروں میں موجود ہیں۔ تم اپنی نفسانی خواہشات ان سے پوری کرسکتے ہو، اور یہی فطرت کا پاکیزہ طریقہ ہے۔