75۔ 1 گہری نظر سے جائزہ لینے اور غور وفکر کرنے والوں کو مُتَوَسِّمِیْنَ کہا جاتا ہے۔ مُتَوَسِّمِیْنَ کے لئے اس واقعے میں عبرت کے پہلو اور نشانیاں ہیں۔
[٣٩] متوسم سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرائن و علامات اور آثار سے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی اہلیت رکھتے ہوں یعنی غور و فکر اور دھیان کرنے والے اہل دانش کے لیے اس واقعہ لوط میں عبرت کے بہت سے نشان موجود ہیں۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ۔۔ : ” لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ “ یہ ” وَسْمٌ، سِمَۃٌ“ سے باب تفعل کا اسم فاعل ہے۔ ” وَسْمٌ“ کا معنی نشان ہے، خصوصاً جو گرم لوہے کے ساتھ اونٹ یا گھوڑے پر لگایا جاتا ہے۔ ” مِیْسَمٌ“ گرم کرکے نشان لگانے کا آلہ۔ نشانات کو دیکھ کر بات کی تہ تک پہنچنا ” تَوَسَّم “ کہلاتا ہے، یعنی غور و فکر کرنے والوں اور گہری نظر والوں کے لیے ان بستیوں میں عبرت کے بہت سے نشان موجود ہیں ۔
جن بستیوں پر عذاب ہوا ان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے :- (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ ۔ اس میں حق تعالیٰ نے ان بستیوں کا محل وقوع بیان فرمایا جو عرب سے شام تک جانے والے راستہ پر ہیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ان میں اہل بصیرت کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں ہیں۔- ایک دوسری آیت میں ان کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا ہے (آیت) لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا یعنی یہ بستیاں عذاب الہی کے ذریعہ ویران ہونے کے بعد پھر دوبارہ آباد نہیں ہوئیں بجز چند بستیوں کے اس مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ان بستیوں اور ان کے مکانات کو آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا سامان بنایا ہے۔- یہی وجہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان مقامات سے گذرے ہیں تو آپ پر ہیبت حق کا ایک خاص حال ہوتا تھا جس سے سر مبارک جھک جاتا تھا اور آپ اپنی سواری کو ان مقامات میں تیز کر کے جلد عبور کرنے کی سعی فرماتے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عمل نے یہ سنت قائم کردی کہ جن مقامات پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے ان کو تماشا گاہ بنانا بڑی قساوت ہے بلکہ ان سے عبرت حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا استحضار اور اس کے عذاب کا خوف طاری ہو۔ - حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں جن کا تختہ الٹا گیا ہے قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق عرب سے شام کو جانے والے راستہ پر اردن کے علاقہ میں آج بھی یہ مقام سطح سمندر سے کافی گہرائی میں ایک عظیم صحرا کی صورت میں موجود ہے اس کے ایک بہت بڑے رقبہ پر ایک خاص قسم کا پانی دریا کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اس پانی میں کوئی مچھلی، مینڈک وغیرہ جانور زندہ نہیں رہ سکتا اس دریا کو میت اور بحر لوط کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ درحقیقت اس میں پانی کے اجزاء بہت کم اور تیل کی قسم کے اجزاء زیادہ ہیں اس لئے اس میں کوئی دریائی جانور زندہ نہیں رہ سکتا
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ 75- وسم - الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] ، أي :- للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» «3» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات .- ( وس م )- الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] کثرت سجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعیہ ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں
آیت ٧٥ (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ )- ” متوسمین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقیہ ‘ آیات تاریخیہ ‘ آیات انفسیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعے سے حقیقت کو جاننا اور پہچاننا چاہیں۔ اسم (اصل مادہ ” س م و “ ہے۔ الف اس کے حروف اصلیہ میں سے نہیں ہے) کے معنی علامت کے ہیں۔ اردو میں لفظ ” اسم “ کو نام کے مترادف کے طور پر جانا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ کسی چیز یا شخص کا نام بھی ایک علامت کا کام دیتا ہے جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا جو اصحاب بصیرت علامتوں سے متوسم (باب تفعل) ہوتے ہیں ‘ ان کے لیے ایسے واقعات میں سامان عبرت موجود ہے۔