Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 مراد شاہراہ ہے، یعنی قوم لوط کی بستیاں مدینے سے شام کو جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے کو انہی بستیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پانچ بستیاں تھیں، کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے بازو پر انھیں اٹھایا اور آسمان پر چڑھ گئے حتٰی کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں اور پھر ان کو زمین پردے مارا (ابن کثیر) مگر اس بات کی کوئی سند نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ : ” مُّقِيْمٍ “ ” ہمیشہ رہنے والا، دائمی “ یعنی جو قافلے حجاز سے شام یا عراق سے مصر جاتے ہیں یہ بستی ان کے راستے میں پڑتی ہے، مگر لوگ ہیں کہ اس میں تباہی کے آثار دیکھ کر کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْهِمْ مُّصْبِحِيْنَ وَبِالَّيْلِ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) [ الصافات : ١٣٧، ١٣٨ ] ” اور بلاشبہ تم یقیناً صبح جاتے ہوئے ان پر سے گزرتے ہو اور رات کو بھی، تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟ “ جدید محققین کا خیال ہے کہ یہ بستی بحرمیت (جسے بحر لوط یا اردو میں بحر مردار بھی کہتے ہیں) کے جنوب مشرق میں واقع تھی، بلکہ اس زمانہ میں اردن کی حکومت بحرمیت کے جنوبی حصہ سے اس کے تباہ شدہ آثار برآمد کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ 76؀- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٦۔ ٧٧) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی یہ بستیاں ایک آباد سڑک پر ملتی ہیں جس پر ہر وقت لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور ان کی ہلاکت میں اہل ایمان کے لیے بڑی عبرت ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ )- قوم لوط کی یہ بستیاں اس شاہراہ عام پر واقع تھیں جو یمن (بحیرۂ عرب) اور شام (بحیرۂ روم) کے ساحلوں کو آپس میں ملاتی تھی۔ مشرقی ممالک (ہندوستان ‘ چین ‘ جاوا ‘ ملایا وغیرہ) سے یورپ جانے کے لیے جو سامان آتا تھا وہ یمن کے ساحل پر اتارا جاتا تھا اور پھر اس راستے سے تجارتی قافلے اسے شام اور فلسطین کے ساحل پر پہنچا دیتے تھے۔ اسی طرح یورپ سے مشرقی ممالک کے لیے آنے والا سامان شام کے ساحل پر اترتا تھا اور یہی قافلے اسے یمن کے ساحل پر پہنچانے کا ذریعہ بنتے تھے۔ اس وقت نہر سویز بھی نہیں بنی تھی اور ” راس امید “ والا راستہ ( ) بھی دریافت نہیں ہوا تھا ‘ جو واسکو ڈے گا ما نے ١٤٩٨ ء میں تلاش کیا۔ چناچہ یہ شاہراہ اس زمانے میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارتی رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :42 یعنی حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوئے یہ تباہ شدہ علاقہ راستہ میں پڑتا ہے اور عموما قافلوں کے لوگ تباہی کے ان آثار کو دیکھتے ہیں جو اس پورے علاقے میں آج تک نمایاں ہیں ۔ یہ علاقہ بحر لوط ( بحیرہ مردار ) کے مشرق اور جنوب میں واقع ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس کے جنوبی حصے کے متعلق جغرافیہ دانوں کا بیان ہے کہ یہاں اس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں اردن کے بحیرۂ مردار کے آس پاس واقع تھیں، اور عرب کے لوگ جب شام کا سفر کرتے توان بستیوں کے آثار ان کے راستے میں پڑتے تھے۔ آیت 72 کے بارے میں یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے سوا کسی کی قسم کھانا انسانوں کے لیے جائز نہیں۔ دیکھئے سورۃ صافات کا حاشیہ نمبر 1