Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اصحاب ایکہ کا المناک انجام اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے ۔ ایکہ کہتے ہیں درختوں کے جھنڈ کو ۔ ان کا ظلم علاوہ شرک و کفر کے غارت گری اور ناپ تول کی کمی بھی تھی ۔ ان کی بستی لوطیوں کے قریب تھی اور ان کا زمانہ بھی ان سے بہت قریب تھا ۔ ان پر بھی ان کی پہیم شراتوں کی وجہ سے عذاب الہی آیا ۔ یہ دونوں بستیاں بر سر شارع عام تھیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈراتے ہوئے فرمایا تھا کہ لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 أیکَہ گھنے درخت کو کہتے ہیں۔ اس بستی میں گھنے درخت ہونگے۔ اس لئے انھیں ( اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ ) 15 ۔ الحجر :78) (بن یا جنگل والے) کہا گیا۔ مراد اس سے قوم شعیب ہے اور ان کا زمانہ حضرت لوط علیہ السلام کے بعد ہے اور ان کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان قوم لوط کی بستیوں کے قریب ہی تھا۔ اسے مدین کہا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا اور اسی کے نام پر بستی کا نام پڑگیا تھا۔ ان کا ظلم یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے تھے، رہزنی ان کا شیوہ اور کم تولنا اور کم ناپنا ان کا وطیرہ تھا، ان پر جب عذاب آیا ایک بادل ان پر سایہ فگن ہوگیا پھر چنگھاڑ اور بھو نچال نے مل کر ان کو ہلاک کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] اصحاب الایکہ کون تھے ؟ یعنی بن کے رہن والے۔ یعنی ایسی قوم جو درختوں کے ذخیرہ کے پاس رہتی تھی اور یہ مدین کے پاس ہی تھے اور ان کی طرف بھی شعیب ہی مبعوث ہوئے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں تھیں اور بعض کے نزدیک ایک ہی قوم تھی۔ ان کا جرم شرک کے علاوہ تجارتی بددیانتیاں نیز ناپ تول میں کمی بیشی کرنا تھا۔ ان کا حال پہلے سورة اعراف کی آیت ٨٥ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ لَظٰلِمِيْنَ ۔۔ : یہ ” اِنْ “ اصل میں ”إِنَّ “ تھا، اس کا اسم ضمیر شان ” ہٗ “ محذوف ہے، اس کی دلیل اور سبب وہ لام ہے جو ” ظَالِمِیْنَ “ پر آیا ہے، جو ” کَانَ “ کی خبر ہے۔ ” اَلْأَیْکُ “ اسم جنس ہے، درختوں کے جھنڈ، زیادہ ہوں یا ایک، جیسے ” تَمْرٌ“ اسم جنس ہے۔ تاء وحدۃ کے اظہار کے لیے ہے، اس لیے ” الْاَيْكَةِ “ کا معنی ہے ایک جھنڈ، جیسے ” تَمَرْۃٌ“ ایک کھجور۔ - 3 بہت سے علماء کا کہنا ہے کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ ایک ہی قبیلہ تھا اور کئی مفسرین انھیں الگ الگ قوم شمار فرماتے ہیں۔ ان کا ظلم یہ تھا کہ وہ شرک میں گرفتار تھے، ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے، راہ چلتے مسافروں کو لوٹ لیتے تھے۔ ان دونوں کی طرف شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا گیا، تاکہ وہ ظلم کی ان تمام صورتوں سے باز آجائیں۔ مدین والوں کی تفصیل سورة ہود (٨٤ تا ٩٥) میں ہے اور اصحاب الایکہ کی تفصیل سورة شعراء ( ١٧٦ تا ١٩١) میں ہے۔ بعض کے مطابق اصحاب مدین اسی قوم کے شہری لوگ تھے اور اصحاب الایکہ انھی کے باہر جنگل میں رہنے والے لوگ تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- قصہ اصحاب ایکہ اور اصحاب حجر :- اور بن والے (یعنی شعیب (علیہ السلام) کی امت بھی) بڑے ظالم تھے سو ہم نے ان سے (بھی) بدلہ لیا (اور ان کو عذاب سے ہلاک کیا) اور دونوں (قوم کی) بستیاں صاف سڑک پر (واقع) ہیں (اور شام کو جاتے ہوئے راہ میں نظر آتی ہیں) اور حجر (بکسرحاء) والوں نے (بھی) پیغمبروں کو جھوٹا بتلایا (کیونکہ جب صالح (علیہ السلام) کو جھوٹا کہا اور سب پیغمبروں کا اصل دین ایک ہی ہے تو گویا سب کو جھوٹا بتلایا) اور ہم نے ان کو اپنی (طرف سے) نشانیاں دیں (جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت ثابت ہوتی تھی مثلا دلائل توحید اور ناقہ کہ معجزہ صالح (علیہ السلام) کا تھا) سو وہ لوگ ان (نشانیوں) سے روگردانی (ہی) کرتے رہے اور وہ لوگ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے تھے کہ (ان میں سب آفات سے) امن میں رہیں سو ان کو صبح کے وقت (خواہ اول ہی صبح میں یا دن چڑھے علی الاحتمالین) آواز سخت نے آپکڑا سو ان کے (دنیوی) ہنر ان کے کچھ بھی کام نہ آئے (ان ہی مستحکم گھروں میں عذاب سے کام تمام ہوگیا اس آفت سے ان کے گھروں نے نہ بچایا بلکہ اس آفت کا ان کو احتمال بھی نہ تھا اور اگر ہوتا بھی تو کیا کرتے)- معارف و مسائل :- آیکہ بن یعنی گھنے جنگل کو کہتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ مدین کے پاس ایک بن تھا اس لئے آیکہ اصحاب مدین ہی کا لقب ہے بعض نے کہا ہے کہ اصحاب آیکہ اور اصحاب مدین دو علیحدہ علیحدہ قومیں تھیں ایک قوم کی ہلاکت کے بعد شعیب (علیہ السلام) دوسری قوم کی طرف مبعوث ہوئے - تفسیر روح المعانی میں ابن عساکر کے حوالہ سے یہ مرفوع حدیث نقل کی گئی ہے کہ (ان مدین واصحاب الایکۃ امتان بعث اللہ تعالیٰ الہیما شعیبا واللہ اعلم۔ )- اور حجر ایک وادی ہے جو حجاز وشام کے درمیان واقع ہے اس میں قوم ثمود آباد تھی۔- شروع سورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مکہ کو جو شدید عناد و مخالفت تھی اس کا بیان تھا اس کے ساتھ اجمالا آپ کی تسلی کا مضمون بھی ذکر کیا تھا اب ختم سورت پر اسی عناد و مخالفت کے بارے میں آپ کی تسلی کے لئے تفصیلی مضمون بیان کیا جارہا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے - بقیہ خلاصہ تفسیر :- اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کے عناد و خلاف سے غم نہ کیجئے کیونکہ اس کا ایک روز فیصلہ ہونے والا ہے اور وہ روز قیامت ہے جس کی آمد کے متعلق ہم آپ سے تذکرہ کرتے ہیں کہ) ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور ان کے درمیانی چیزوں کو بغیر مصلحت کے پیدا نہیں کیا (بلکہ اس مصلحت سے پیدا کیا کہ ان کو دیکھ کر صانع عالم کے وجود اور وحدت و عظمت پر استدلال کرکے اس کے احکام کی اطاعت کریں اور بعد اقامت اس حجت کے جو ایسا نہ کرے وہ معذب ہو) اور) دنیا میں پورا عذاب ہوتا نہیں تو اور کہیں ہونا چاہئے اس کے لئے قیامت مقرر ہے پس) ضرور قیامت آنے والی ہے (وہاں سب کو بھگتایا جائے گا) سو آپ (کچھ غم نہ کیجئے بلکہ) خوبی کے ساتھ (ان کی شرارتوں سے) درگذر کیجئے (درگذر کا مطلب یہ ہے کہ اس غم میں نہ پڑئیے اس کا خیال نہ کیجئے اور خوبی یہ کہ شکوہ و شکایت بھی نہ کیجئے کیونکہ) بلاشبہ آپ کا رب (چونکہ) بڑا خالق (ہے اس سے ثابت ہوا کہ) بڑا عالم (بھی) ہے (سب کا حال اس کو معلوم ہے آپ کے صبر کا بھی ان کی شرارت کا بھی اس لئے ان سے پورا پورا بدلہ لے لے گا )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ لَظٰلِمِيْنَ 78؀ۙ- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو - أيك - الأَيْكُ : شجر ملتف وأصحاب الأيكة قيل : نسبوا إلى غيضة کانوا يسکنونها وقیل : هي اسم بلد .- ( ای ک ) الایک - ۔ درختوں کا جھنڈ ( ذوای کہ ) اور آیت ۔ وأصحاب الأيكةکی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ الایکۃ ان کے شہر اور آبادی کا نام ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٨۔ ٧٩) اور بن والے یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم بھی بڑے مشرک تھے سو ہم نے ان پر عذاب نازل کرکے ان سے دنیا میں بدلہ لیا اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں صاف سڑک پر واقع ہیں اور اس سے لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ لَظٰلِمِيْنَ )- ” اصحاب الایکہ “ سے اہل مدین مراد ہیں۔ یہ حضرت شعیب کی قوم تھی مگر یہاں اس قوم کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا نام نہیں لایا گیا۔ ان سب اقوام کا تذکرہ یہاں پر انباء الرسل کے انداز میں ہورہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: ایکہ اصل میں گھنے جنگل کو کہتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے وہ ایسے ہی گھنے جنگل کے پاس واقع تھی۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اسی بستی کا نام مدین تھا، اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مدین کے علاوہ کوئی اور بستی تھی، اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اس کی طرف بھی بیجے گئے تھے۔ اس قوم کا واقعہ سورۃ اعراف آیت 85 تا 93 میں گذر گیا ہے تفصیلات کے لیے ان آیات کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔