آل ثمود کی تباہیاں حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا ۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے حضرت صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی ۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس وقت حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا بس اب تین دن کے اندر اندر قہرے الہی نازل ہو گا ۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی ۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریا کاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے ۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتا یہ چیز نہ تھی ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جن پر عذاب الہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو ۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الہی بصورت چنگھاڑ آیا ۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لئے اور انہیں بڑھانے کے لئے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بےسود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا ۔
80۔ 1 حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کی بستیوں کا نام تھا۔ انھیں ( اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ ) 15 ۔ الحجر :80) (حجر والے) کہا گیا ہے۔ یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، یہ اس لئے کہ ایک پیغمبر کی تکذیب ایسے ہی ہے جیسے سارے پیغمبروں کی تکذیب۔
[٤٢] وادی حجر کے لوگوں سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہاں جو ایک رسول کے بجائے کئی رسولوں کا ذکر فرمایا تو یہ اس لحاظ سے ہے کہ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک ہی رہی ہے لہذا ایک رسول کو جھٹلانا سب رسولوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ : ” الْحِـجْرِ “ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جسے پتھروں سے گھیرا گیا ہو، جیسا کہ حطیم کو بھی حجر کہہ لیتے ہیں۔ ” حَجَرَ یَحْجُرُ “ کا معنی روکنا بھی ہے، تو ” الْحِـجْرِ “ وہ جگہ جہاں عام لوگوں کا آنا جانا ممنوع ہو۔ یہ اس سورت میں چوتھا قصہ ہے۔ ” الْحِـجْرِ “ شام اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک مقام ہے، جو صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کے لوگوں کا مرکز تھا، یہ جگہ خیبر سے تبوک جانے والی سڑک پر واقع ہے اور اب ” مدائن صالح “ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ ” العُلاء “ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حجاز سے شام کو جو قافلے جاتے ہیں وہ لازماً یہاں سے گزر کر جاتے ہیں اور یہ اس ریلوے لائن کا ایک سٹیشن بھی ہے جو ترکوں کے زمانہ میں مدینہ سے دمشق کو جاتی تھی۔ اس قوم کے مفصل حالات سورة ہود (٦٥ تا ٦٨) ، سورة اعراف، سورة قمر اور سورة شعراء میں ملاحظہ فرمائیں۔- الْمُرْسَلِيْنَ : ایک رسول کو جھٹلانا چونکہ سب کو جھٹلانا ہے، اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ انھوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا۔ (روح المعانی)
وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ 80ۙ- صدق وکذب - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔ الکذب - یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔
(٨٠۔ ٨١) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی حضرت صالح (علیہ السلام) اور تمام رسولوں کو جھٹلایا اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں یعنی اونٹنی وغیرہ دیں، سو وہ لوگ انھیں جھٹلاتے رہے۔
آیت ٨٠ (وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ )- اصحاب الحجر سے مراد قوم ثمود ہے۔ قوم ثمود حجر کے علاقے میں آباد تھی اور ان کی طرف حضرت صالح مبعوث کیے گئے تھے۔ جیسے حضرت ہود کی قوم عاد کا ذکر ” احقاف “ کے حوالے سے بھی ہوا ہے (ملاحظہ ہو سورة الاحقاف) جو اس قوم کا علاقہ تھا ‘ اسی طرح قوم ثمود کا ذکر یہاں ” اصحاب الحجر “ کے نام سے ہوا ہے۔ یہاں پر ” مرسلین “ کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم میں پہلے بہت سے انبیاء آئے اور پھر آخر میں رسول کی حیثیت سے حضرت صالح تشریف لائے ۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :45 یہ قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا ۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں ۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہراہ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا ۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ ”یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں ۔ ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷ )
28: حِجر (حا کے نیچے زیر) قومِ ثمود کی اُن بستیوں کا نام تھا جن کے پاس حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا، ان کا واقعہ بھی سورۂ اعراف آیت نمبر ۷۳ تا ۷۹ میں گذر چکا ہے، ان کے تعارف کے لئے اسی سورت کی مذکورہ آیات پر ہمارے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔