قرآن عظیم سبع مثانی اور ایک لازوال دولت اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لئے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔ ہاں تجھے چاہئے کہ نرمی ، خوش خلقی ، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١٢٨ ) 9- التوبہ:128 ) لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کا دل سے خواہاں ہے جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے ۔ سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتدا کی سات لمبی سورتیں ہیں سورہ بقرہ ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، انعام ، اعراف اور یونس ۔ اس لئے کہ ان سورتوں میں فرائض کا ، حدود کا ، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں ، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں ۔ بعض نے سورہ اعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں ۔ ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں ۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں ۔ حکم ، منع ، بشارت ، ڈر اور مثالیں ، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورہ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں ۔ یہ سات آیتیں ( بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت ہیں ۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں ۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو ۔ امام ابن جریر رضی اللہ عنہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورہ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں فالحمد للہ ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں ۔ ایک میں ہے حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ کے پاس نہ آیا نماز ختم کر کے پہنچا تو آپ نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میں نماز میں تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24 ) 8- الانفال:24 ) یعنی ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں ۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا ۔ تھوڑی دیر میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ آیت ( الحمد للہ رب العالمین ) کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں ۔ دوسری میں آپ کا فرمان ہے کہ ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ۔ پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورہ فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں ۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے آیت ( اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متثابھا مثانی ) پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے ۔ اور متشابہ بھی ۔ پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشابہ ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قبا کے بارے میں اتری ہے ۔ پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا ۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو ۔ واللہ اعلم ۔ پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بےنیاز رہنا چاہئے اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بےپرواہ نہ ہو جائے وہ مسلمان نہیں ۔ گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کر دیا ہے ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رھن رکھے میں نہیں دوں گا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کر دیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا پس آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88 ) 15- الحجر:88 ) نازل ہوئی اور گویا آپ کی دل جوئی کی گئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے ۔ یہ جو فرمایا کہ ان کی جما عتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں ۔
87۔ 1 سبع مثانی سے مراد کیا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں اور جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیئے گئے ہیں (حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا (اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں فرمایا (ام القرآنھی السبع المثانی والقرآن العظیم) سورة فاتحہ قرآن کا ایک جزء ہے اس لیے قرآن عظیم کا ذکر بھی ساتھ ہی کیا گیا ہے۔
[٤٧] سبع المثانی یا قرآن العظیم فضائل سورة فاتحہ :۔ سات بار بار دہرائی جانے والی آیات سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ چناچہ سیدنا سعید بن معلیٰ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھکر ہے اور وہ ہے (اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) وہی سبعا من المثانی اور قرآن العظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔ (بخاری، تفسیر سورة فاتحہ، نیز کتاب التفسیر، سورة انفال زیر آیت نمبر ٢٤ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24) 8 ۔ الانفال :24)- نیز سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سورة الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور سات دہرائی جانے والے آیتیں ہیں۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر سورة محمد)- اور یہ سورت قرآن عظیم اس لحاظ سے ہے کہ اس میں پورے قرآن کی تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے۔ گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور اس کی حمد و ثنا، پھر روز آخرت میں جزا و سزا کا جامع ذکر، پھر شرک کی تمام اقسام سے کلی اجتناب کا اقرار، پھر صراط مستقیم کی ہدایت کی طلب۔ یہ ہی مضامین قرآن میں مختلف انداز سے اجمالاً اور تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سورة کا مزید اختصار ( اِیَّاَکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) ہے تفصیل کے لیے دیکھئے سورة فاتحہ کے حواشی۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ :” الْمَثَانِيْ “ ” ثَنٰی یَثْنِیْ “ (ض) کے اسم مفعول ” مَثْنِیَّۃٌ“ (بروزن مَضْرُوْبَۃٌ، مَرْمِیَّۃٌ) کی جمع ہے، معنی دوہرا کرنا، دوہرانا ہے، یعنی بار بار دہرائی جانے والی۔- کافروں کی زیادتی سے درگزر کی تلقین کے ساتھ اپنی ایک عظیم نعمت سبع مثانی اور قرآن عظیم یاد دلائی، تاکہ اتنی بڑی دولت کا مالک ہونے کے احساس سے کفار سے درگزر میں آسانی رہے۔ - سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ : ” لام “ اور ” قَدْ “ کی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی عطا فرمائیں۔ یہ آیت اس بات کی بھی بڑی واضح دلیل ہے کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی ایمان اور عمل واجب ہے، اس کے بغیر قرآن نہ صحیح سمجھا جاسکتا ہے نہ اس پر عمل ہوسکتا ہے۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہیں نہیں بتایا کہ وہ سبع مثانی سات سورتیں ہیں یا سات آیتیں، نہ یہ بتایا کہ وہ سورتیں ہیں تو کون سی اور آیتیں ہیں تو کون سی ؟ بلکہ ایک جگہ سارے قرآن ہی کو مثانی فرما دیا، فرمایا : (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ) [ الزمر : ٢٣ ] ” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، وہ کتاب جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی ہے۔ “ اب لازم ہے کہ پورے قرآن میں سے جو سارا ہی مثانی ہے، یہ متعین کیا جائے کہ ان سبع مثانی سے مراد کیا ہے۔ اپنے پاس سے متعین کریں تو کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا، اس لیے کسی مفسر نے سات سورتیں بتائیں، کسی نے سات آیتیں، تو کسی نے کچھ اور بتایا۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضاحت کے بغیر قرآن کی اس آیت کا مفہوم متعین کرنا ممکن ہی نہیں، چناچہ ابوسعید بن معلی (رض) فرماتے ہیں : ( کُنْتُ أُصَلِّيْ فَمَرَّبِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِيْ ، فَلَمْ آتِہِ حَتّٰی صَلَّیْتُ ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ ، فَقَالَ مَا مَنَعَکَ أَنْ تَأْتِيَ ؟ أَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ : (اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ) [ الأنفال : ٢٤] ؟ ثُمَّ قَالَ لِيْ لَأُعَلِّمَنَّکَ سُوْرَۃً ھِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِيْ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَّخْرُجَ قُلْتُ لَہٗ أَلَمْ تَقُلْ لَأُعَلِّمَنَّکَ سُوْرَۃً ھِيَ أَعْظَمُ سُوْرَۃٍ فِي الْقُرْآنِ ؟ قَالَ : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) ھِيَ السّبْعُ الْمَثانِيْ وَالقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِيْ أُوْتِیْتُہُ ) [ بخاری، التفسیر، باب ما جاء في فاتحۃ الکتاب : ٤٤٧٤، ٤٦٤٧ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے اور میں نماز پڑھ رہا تھا، تو آپ نے مجھے بلایا، میں آپ کے پاس نہیں آیا، یہاں تک کہ میں نے نماز پڑھ لی، پھر میں آیا تو آپ نے فرمایا : ” تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا ؟ “ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا : (اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ) [ الأنفال : ٢٤ ] اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو جب وہ تمہیں بلائیں۔ “ پھر مجھے فرمایا : ” میں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے ضرور تمہیں ایک سورت سکھاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑی (اعظم) ہے۔ “ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، جب آپ نے نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ سے کہا : ” کیا آپ نے فرمایا نہیں تھا کہ میں تمہیں ایک سورت سکھاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑی ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ سبع مثانی سے سورة فاتحہ کی سات آیتیں مراد ہیں، کیونکہ وہ ہر نماز کی ہر رکعت میں بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ دوسری تفسیریں مثلاً یہ کہ سات لمبی سورتیں مراد ہیں وغیرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صراحت کے بعد کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے بھی کہ لمبی سات سورتوں کی اکثریت تو اتری ہی مدینہ میں ہے، جب کہ یہ آیت مکی ہے۔ - وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ : بہت سے مفسرین نے سبع مثانی سے مراد فاتحہ اور قرآن عظیم سے مراد باقی قرآن لیا ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت میں مذکور سبع مثانی بھی اور القرآن العظیم بھی سورة فاتحہ ہی کو کہا ہے۔ بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں آپ کے الفاظ ہیں : ( اُمُّ الْقُرْآنِ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( و لقد ٰاتینک سبعا من المثانی۔۔ ) : ٤٧٠٤ ] ” ام القرآن ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ “ کیونکہ قرآن ہونے کے لیے پورا قرآن ہونا ضروری نہیں، ایک آیت ہو تو وہ بھی قرآن ہے۔ آپ کا مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ جب قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے تو قرآن عظیم (بہت بڑا قرآن) یہی ہے۔ رہی ” واؤ “ تو وہ ایک ہی چیز کی دو مختلف صفات کے درمیان آجاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙالَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى ۽وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى ۽وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى) [ الأعلٰی : ١ تا ٤ ] ” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے، وہ جس نے پیدا کیا، پس درست بنایا اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر ہدایت کی اور وہ جس نے چارا اگایا۔ “ اور اس لحاظ سے بھی فاتحہ کو ” الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ “ فرمایا کہ قرآن مجید کے تمام مضامین اس میں اجمالی طور پر موجود ہیں۔ - ایک دفعہ گوجرانوالہ میں ایک منکر حدیث نے بہت اودھم مچایا اور بہت سے لوگوں کے عقیدے خراب کیے، مولانا محمد عبد اللہ (رض) (دال بازار والے) کی اس سے گفتگو ہوئی تو مولانا نے سورة توبہ کی آیت پڑھی : (اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ) [ التوبۃ : ٣٦ ] ” بیشک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں “ اور فرمایا کہ جب حدیث کی ضرورت نہیں تو آپ قرآن سے بتائیں کہ حرمت والے وہ چار ماہ کون سے ہیں ؟ اسے بالکل کوئی جواب نہ آیا اور حق بات بہت سے لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔
خلاصہ تفسیر :- اور (آپ ان کے معاملہ کو نہ دیکھئے کہ موجب غم ہوتا ہے ہمارا معاملہ اپنے ساتھ دیکھئے کہ ہماری طرف سے آپ کے ساتھ کس قدر لطف و عنایت ہے چنانچہ) ہم نے آپ کو (ایک بڑی بھاری نعمت یعنی) سات آیتیں دیں جو (نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں اور وہ (بوجہ جامع مضامین عظیمہ ہونے کے اس قابل ہے کہ اس کے دینے کو یوں کہا جاوے کہ) قرآن عظیم دیا (مراد اس سے سورة فاتحہ ہے جس کی عظمت کی وجہ سے اس کا نام ام القرآن بھی ہے پس اس نعمت اور منعم کی طرف نگاہ رکھئے کہ آپ کا قلب مسرور و مطمئن ہو ان لوگوں کے عناد و خلاف کی طرف التفات نہ کیجئے اور) آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی اس چیز کو نہ دیکھئے (نہ بلحاظ افسوس نہ بلحاظ ناراضگی) جو کہ ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو (مثلا یہود و نصاری مجوس اور مشرکین کو) برتنے کے لئے دے رکھی ہے (اور بہت جلد ان سے جدا ہوجائے گی) اور ان (کی حالت کفر) پر (کچھ) غم نہ کیجئے (بلحاظ ناراضگی نظر کرنے سے یہ مراد ہے کہ چونکہ وہ دشمن خدا ہیں اس لئے بوجہ بغض فی اللہ غصہ آئے کہ ایسی نعمتیں ان کے پاس نہ ہوتیں اس کے جواب کی طرف متعنا میں اشارہ ہے کہ یہ کوئی بڑی بھاری دولت نہیں کہ ان مبغوضین کے پاس نہ ہوتیں یہ تو متاع فانی ہے بہت جلد جاتا رہے گا اور بلحاظ افسوس کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ افسوس یہ چیزیں ان کو ایمان سے مانع ہو رہی ہیں اگر یہ نہ ہوں تو غالبا ایمان لے آئیں اس کا جواب لا تحزن میں ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان کی طینت میں حد درجہ عناد ہے ان سے کسی طرح توقع نہیں اور حزن ہوتا ہے خلاف توقع پر جب توقع نہیں تو پھر حزن بےوجہ سے اور بہ لحاظ حرص نظر کرنے کا تو آپ سے احتمال ہی نہیں غرض یہ کہ آپ کسی بھی طرح ان کفار کے فکر وغم میں نہ پڑئیے) اور مسلمانوں پر شفقت رکھئے (یعنی فکر مصلحت اور شفقت کے لئے مسلمان کافی ہیں کہ ان کو اس سے نفع بھی ہے) اور (کافروں کے لئے چونکہ فکر مصلحت کا کوئی نتیجہ نہیں اس لئے ان کی طرف توجہ بھی نہ کیجئے البتہ تبلیغ جو آپ کا فرض منصبی ہے اسکو ادا کرتے رہئے اور اتنا) کہہ دیجئے کہ میں کھلم کھلا (تم کو خدا کے عذاب سے) ڈرانیوالا ہوں (اور خدا کی طرف سے تم کو یہ مضمون پہنچاتا ہوں کہ وہ عذاب جس سے ہمارا نبی ڈراتا ہے ہم تم پر کسی وقت ضرور نازل کریں گے) جیسا ہم نے (وہ عذاب) ان لوگوں پر (مختلف اوقات گذشتہ میں) نازل کیا ہے جنہوں نے (احکام الہی کے) حصے کر رکھے تھے یعنی آسمانی کتاب کے مختلف اجزا قرار دیئے تھے (ان میں جو مرضی کے موافق ہوا مان لیا جو مرضی کے خلاف ہو اس سے انکار کردیا مراد اس سے سابق یہود و نصاری ہیں جن پر مخالفت انبیاء (علیہم السلام) کی وجہ سے عذابوں کا ہونا مثل مسخ بصورت بندر وخنزیر، قید قتل اور ذلت مشہور و معروف تھا مطلب یہ کہ عذاب کا نازل ہونا امر بعید نہیں پہلے ہوچکا ہے اگر تم پر بھی ہوجائے تو تعجب کی کون سی بات ہے خواہ وہ عذاب دنیا میں ہو یا آخرت میں اور جب تقریر مذکور سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس طرح پچھلے لوگ مخالفت انبیاء (علیہم السلام) کی وجہ سے عذاب کے مستحق تھے اسی طرح موجودہ لوگ بھی مستحق عذاب ہوگئے ہیں) سو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو) آپ کے پروردگار کی (یعنی اپنی) قسم ہم ان سب (اگلوں اور پچھلوں) سے ان کے اعمال کی (قیامت کے روز) ضرور باز پرس کریں گے (پھر ہر ایک کو اس کے مناسب سزا دیں گے غرض (حاصل کلام یہ کہ) آپ کو جس بات (کے پہنچانے) کا حکم کیا گیا ہے اس کو (تو) صاف صاف سنا دیجئے اور (اگر یہ نہ مانے تو) ان مشرکوں (کے نہ ماننے) کی (مطلق) پروا نہ کیجئے (یعنی غم نہ کیجئے جیسا اوپر آیا ہے لا تحزن اور نہ طبعی طور پر خوف کیجئے کہ یہ مخالف بہت سے ہیں کیونکہ) یہ لوگ جو (آپ کے اور خدا کے مخالف ہیں چناچہ آپ پر تو) ہنستے ہیں (اور) اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں ان (کے شر و ایذاء) سے آپ (کو محفوظ رکھنے) کے لئے (اور ان سے بدلہ لینے کے لئے) ہم کافی ہیں سو ان کو ابھی معوم ہوا جاتا ہے (کہ استہزاء اور شرک کیا انجام ہوتا ہے غرض جب ہم کافی ہیں پھر کا ہے کا خوف ہے اور واقعہ ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ جو (کفر و استہزاء کی) باتیں کرتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں (کہ یہ طبعی بات ہے) سو (اس کا علاج یہ ہے کہ) آپ اپنے پروردگار کی تسبیح و تمحید کرتے رہئے اور نمازیں پڑھنے والوں میں رہئے اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ (ایسی حالت میں) آپ کو موت آجائے (یعنی مرتے دم تک ذکر و عبادت میں مشغول رہئے کیونکہ ذکر اللہ اور عبادت میں آخرت کے اجر وثواب کے علاوہ یہ خاصیت بھی ہے کہ دنیا میں جب انسان اس طرف لگ جاتا ہے تو دنیا کے رنج وغم اور تکلیف و مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے)- معارف و مسائل :- سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا متن اور خلاصہ ہے۔- ان آیات میں سورة فاتحہ کو قرآن عظیم کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ سورة فاتحہ ایک حیثیت سے پورا قرآن ہے کیونکہ اصول اسلام سب اس میں سموئے ہوئے ہیں - محشر میں سوال کس چیز کا ہوگا :- آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا کہ ان سب اگلوں پچھلوں سے ضرور سوال اور باز پرس ہوگی صحابہ کرام (رض) اجمعین نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ یہ سوال کس معاملہ کے متعلق ہوگا تو آپ نے فرمایا قول لا الہ الا اللہ کے متعلق تفسیر قرطبی میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ ہمارے نزدیک اس سے مراد اس عہد کو عملی طور پر پورا کرنا ہے جس کی علامت کلمہ طبیہ لا الہ الا اللہ ہے محض زبانی قول مقصود نہیں کیونکہ زبان سے اقرار تو منافقین بھی کرتے تھے حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ ایمان کسی خاص وضع وہیت بنانے سے اور دین محض تمنائیں کرنے سے نہیں بنتا بلکہ ایمان اس یقین کا نام ہے جو قلب میں ڈال دیا گیا ہو اور اعمال نے اس کی تصدیق کی ہو جیسا کے ایک حدیث میں حضرت زید بن ارقم سے روایات ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے گا وہ ضرور جنت میں جائے گا لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ اس کلمہ میں اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب یہ کلمہ انسان کو اللہ کے محارم اور ناجائز کاموں سے روک دے تو وہ اخلاص کے ساتھ ہے (قرطبی )
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ 87- ثنی - الثُّنْوَى والثَّنَاء : ما يذكر في محامد الناس، فيثنی حالا فحالا ذكره، يقال : أثني عليه . وتَثَنَّى في مشیته نحو : تبختر، وسمیت سور القرآن مثاني في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر 87] لأنها تثنی علی مرور الأوقات وتکرّر فلا تدرس ولا تنقطع دروس سائر الأشياء التي تضمحل وتبطل علی مرور الأيام، وعلی ذلک قوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر 23] ، ويصح أنه قيل للقرآن : مثاني، لما يثنی ويتجدّد حالا فحالا من فوائده، كما روي في الخبر في صفته : «لا يعوجّ فيقوّم ولا يزيغ فيستعتب، ولا تنقضي عجائبه» «1» .- ويصح أن يكون ذلک من الثناء، تنبيها علی أنه أبدا يظهر منه ما يدعو إلى الثناء عليه وعلی من يتلوه، ويعلمه ويعمل به، وعلی هذا الوجه وصفه بالکرم في قوله تعالی: إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وبالمجد في قوله :- بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج 21] .- ( ث ن ی ) مثاني - تثنی ٰ ( تفعل ) فی مشیتہ تکبر سے لڑکھڑا کر چلنا ۔ اور آیت کریمہ :َ ۔ وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر 87] اوہم نے تم کو سات مثانی ( سورتیں ) عطاکیں ۔ میں قرآن کی سورتوں کو مثانی کہا ہے ۔ کیونکہ مرور ایام کے ساتھ باربار ان کا ذکر اور اعادہ ہوتا رہیگا ۔ لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ نہ تو ان میں کسی قسم کا تغیر آئے گا اور نہ ہی دوسری اشیاء کی طرح یہ زوال پذیر ہیں ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر 23] خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دوہرائی جاتی ہیں ۔ اور قرآن کو مثانی کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ بار بار اعادہ سے اس کے عجائب وغرائب منقطع نہیں ہوتے اور ہر بار نئے حقائق سامنے آتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے وصف میں ایک روایت مروی ہے (53) لایعوج فیقوم ولا یزیغ فیستعتب ولا تنقضی عجائبہ ۔ کہ اس میں کچی نہیں آئے گی کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے اور اس میں زیغ پیدا ہوگا کہ اس کا ازالہ کرنا پڑے اور اس کے عجائب وغرائب کبھی منقطع نہیں ہوں گے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مثافی ثناء سے مشتق ہو تو اس اسے اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ قرآن پاک سے ہمیشہ ایسے مضامین ظاہر ہوتے رہیں گے جو اس کی ، اس کو پڑھنے والوں ، اس کا علم حاصل کرنے والوں ، اور اس پر عمل کرنے والوں ، کی تعریف کا موجب ہوں گے اور اسی معنی میں قرآن کو آیت :۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے :۔ میں کرم کے ساتھ متصف کیا ہے اور آیت :۔ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج 21] بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے ۔ اس کے وصف میں مجید کا لفظ ذکر کیا ہے ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔
(٨٧) یعنی قرآن کریم کی سورة فاتحہ کی سات آیتیں جو ہر ایک رکعت میں پڑھی جاتی ہیں یا یہ کہ ہم نے ایسا قرآن کریم آپ کو عطا فرمایا کہ وہ پورے کا پورا شافی ہے، چناچہ اس میں امر، نہی، وعد، وعید، حلال، حرام، ناسخ، منسوخ، حقیقت، مجاز محکم، متشابہ، جو ہوچکا اور جو ہوگا اس کی اطلاع ایک قوم کی تعریف اور دوسری قوم کی مذمت تو سارے قرآن کریم میں مضامین بھی مرر اور ہفت ہیں اور قرآن عزیز وعظیم کے ساتھ ہم نے آپ کو اعزاز عطا فرمایا جیسا کہ یہود ونصاری پر توریت وانجیل نازل کی کہ جنہوں نے آسمانی کتابوں کے حصے کر رکھے تھے ،
آیت ٨٧ (وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ )- اس پر تقریباً تمام امت کا اجماع ہے کہ یہاں سات بار بار دہرائے جانے والی آیات سے مراد سورة الفاتحہ ہے۔ حدیث میں سورة الفاتحہ کو نماز کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے : (لَا صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ) (متفق علیہ) یعنی جو شخص (نماز میں) سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں۔ قبل ازیں سورة الفاتحہ کے مطالعے کے دوران ہم وہ حدیث قدسی بھی پڑھ چکے ہیں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو نماز قرار دیا گیا ہے : (قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ ) (رواہ مسلم) اب جبکہ ہر نمازی اپنی نماز کی ہر رکعت میں سورة الفاتحہ کی تلاوت کر رہا ہے تو اندازہ کریں کہ دنیا بھر میں ان سات آیات کی تلاوت کتنی مرتبہ ہوتی ہوگی۔ اس کے علاوہ آیت زیر نظر میں اس سورة کو ” قرآن عظیم “ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یعنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے سورة الفاتحہ قرآن عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس سورت کو اساس القرآن اور ام القرآن قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے الکافیہ (کفایت کرنے والی) اور الشافیہ (شفا دینے والی) جیسے نام بھی دیے گئے ہیں۔- ایک حدیث کے مطابق سورة الفاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تورات میں ہے ‘ نہ انجیل میں اور نہ ہی قرآن میں۔ چناچہ یہاں حضور کی دلجوئی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی دیکھیں ہم نے آپ کو اتنا بڑا خزانہ عطا فرمایا ہے۔ ابو جہل اگر خود کو مالدار سمجھتا ہے ‘ ولید بن مغیرہ اپنے زعم میں اگر بہت بڑا سردار ہے تو آپ مطلق پروا نہ کریں۔ ان لوگوں کی سوچ کے اپنے پیمانے ہیں۔ ان بد بختوں کو کیا معلوم کہ ہم نے آپ کو کتنی بڑی دولت سے نوازا ہے
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :49 یعنی سورہ فاتحہ کی آیات ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ سات بڑی بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو دو سو آیتیں ہیں ، یعنی البقرہ ، آل عمران ، النساء ، المائدہ ، الانعام ، الاعراف اور یونس ، یا انفاق و توبہ ۔ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورہ فاتحہ ہی مراد ہے ۔ بلکہ امام بخاری نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبع من المثانی سے مراد سورہ فاتحہ بتائی ہے ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :50 یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے ۔ وقت وہ تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے ۔ کار نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تجارت قریب قریب ختم ہو چکی تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہو چکا تھا ۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے ، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے ، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی ۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمان مکے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ہر طرف سے مطعون تھے ، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے ، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیتوں سے بھی کوئی بچا ہوا نہ تھا ۔ دوسری طرف سردارن قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح کی خوشحالیوں میں مگن تھے ۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو ، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں ۔ رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ ان لوگوں کی مادی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طرح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں ۔
31: اس سے مراد سورۂ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں، غالباً اس موقع پر سورۂ فاتحہ کا خصوصی حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سورت میں بندوں کو ایاک نعبد وایاک نستعین کے ذریعے ہر بات اللہ سے مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، گویا یہ ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آئے، اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اسی سے مدد مانگو، اور اسی سے صرط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرو۔