اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ : تو پھر اس کے لیے انھیں دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ دیکھیے سورة یٰس (٨١) ۔
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ 86- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
(٨٦) آپ کا پروردگار مومن و کافر سب کو قیامت کے دن زندہ کردے گا اور انکے ثواب و عذاب کا وہ بڑا عالم ہے اور ہم نے آپ کو ایک عظیم الشان نعمت دی ہے۔
آیت ٨٦ (اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ )- وہ جو پیدا کرنے والا ہے اپنی مخلوق کو خوب جانتا بھی ہے۔ سورة الملک میں فرمایا گیا : (اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) ” کیا اسی کے علم میں نہیں ہوگا جس نے پیدا کیا ؟ بلکہ وہ تو نہایت باریک بین باخبر ہے “۔ کسی مشین کو بنانے والا اس کے تمام کل پرزوں سے خوب واقف ہوتا ہے۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :48 یعنی خالق ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی مخلوق پر کامل غلبہ و تسلط رکھتا ہے ، کسی مخلوق کی یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکے ۔ اور اس کے ساتھ وہ پوری طرح باخبر بھی ہے ، جو کچھ ان لوگوں کی اصلاح کے لیے تم کر رہے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے اور جن ہتھکنڈوں سے یہ تمہاری سعی اصلاح کو ناکام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ان کا بھی اسے علم ہے ۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے اور بے صبر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ مطمئن رہو کہ وقت آنے پر ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ چکا دیا جائے گا ۔