Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیاں اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے ، قیامت آنے والی ہے ، بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں ۔ مخلوق باطل سے پیدا نہیں کی گئی ۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لئے ویل دوزخ ہے ۔ اور آیت میں ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے ، ان کی ایزا اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے تھا یہ آیت مکیہ ہے اور جہاد بعد از ہجرت مقرر اور شروع ہوا ہے ۔ تیرا رب خالق ہے اور خالق مار ڈالنے کے بعد بھی پیدائش پر قادر ہے ، اسے کسی چیز کی بار بار کی پیدا ئش عاجز نہیں کر سکتی ۔ ریزوں کو جب بکھر جائیں وہ جمع کر کے جان ڈال سکتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81؀ ) 36-يس:81 ) ، آسمان و زمین کا خالق کیا ان جیسوں کی پیدائش کی قدرت نہیں رکھتا ؟ بیشک وہ پیدا کرنے والا علم والا ہے وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہو جانے کو فرما دیتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے ۔ پاک ذات ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 حق سے مراد وہ فوائد و صالح ہیں جو آسمان و زمین کی پیدائش سے مقصود ہیں۔ یا حق سے مراد محسن (نیکوکار) کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی برائی کا بدلہ دینا ہے۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے (النجم۔ 31)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] ان قوموں پر عذاب الٰہی نازل کرکے ان کی بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا طرز زندگی کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی نہیں تھا بلکہ اوہام پرستی اور باطل پر تھا جبکہ کائنات کی ہر ایک چیز ٹھوس حقائق پر پیدا کی گئی ہے اور انہی حقائق سے یہ دلیل بھی ملتی ہے کہ یہ کائنات بےمقصد پیدا نہیں کی گئی اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت ضرور قائم ہونا چاہیے اور مجرم لوگ تو ہمیشہ روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کے تصور کے منکر رہے ہیں۔ لہذا ان کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اب یہ مشرکین مکہ جو اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ان کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے لہذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ ابھی ان سے درگزر سے کام لیجئے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ مناسب وقت پر ان سے خود نمٹ لے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : ” بِالْحَقِّ “ کا معنی صحیح، با مقصد کام جو ہو کر رہنے والا ہو، جو بےکار، بےمقصد نہ ہو اور جسے کوئی روک نہ سکے۔ اس کے بالمقابل باطل ہے، فرمایا : (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ ) [ الأنبیاء : ١٨] ” بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں۔ “ چار انبیاء کے واقعات کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوق آسمان و زمین اور ان کے درمیان بیشمار مخلوقات کی طرف توجہ دلائی، جن میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت و قدرت پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا کہ یہ سب ہم نے بےمقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ یہ سب کچھ تمہاری ضروریات کے لیے ہے اور ان میں سے ہر چیز کے لیے اللہ کا حکم ماننا ہر حال میں لازم ہے، کسی کو اختیار ہی نہیں کہ وہ سرتابی کرسکے۔ صرف انسانوں اور جنوں کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، اگر اس کا صحیح استعمال کریں گے تو دنیا و آخرت میں اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں گے، جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر ہوا ہے، غلط استعمال کریں گے تو یا تو دنیا ہی میں اللہ کی گرفت میں آجائیں گے، جیسے لوط، شعیب اور صالح کی قومیں اللہ کے عذاب کی گرفت میں آئیں۔ اس کے بعد یقیناً قیامت آنے والی ہے، اس میں نیکوں کو ان کی نیکی کا پورا بدلہ دے گا، اگر دنیا میں بدلہ نہیں ملا تو وہاں کسر نکال دی جائے گی، اسی طرح بروں کو ان کی بدی کا پورا بدلہ ملے گا اور اگر دنیا میں انھیں مہلت ملی رہی تو وہاں کسر پوری کردی جائے گی۔ اس لیے آپ اور آپ کے ساتھی ان کفار کی زیادتی پر صبر کریں اور ان کی زبان درازی سے درگزر فرمائیں (دیکھیے آل عمران : ١٨٦) اور درگزر بھی خوبصورت طریقے سے، تاکہ قطع تعلق سے دعوت کا راستہ بند نہ ہوجائے۔ یہ سارا بیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ 85؀- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- صفح - صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ.- والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ.- ( ص ف ح ) صفح - ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔- جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ - وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥) اور ہم نے تمام مخلوقات اور ان عجائبات کو حق و باطل کے اظہار اور ان کفار پر حجت قائم کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور قیامت ضرور آنے والی ہے تو آپ خوبی کے ساتھ انھیں معاف کیجیے، یہ آیت، آیت قتال کے ساتھ منسوخ ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اس سورة کی آخری پندرہ آیات دعوت دین کے اعتبار سے بہت اہم ہیں)- آیت ٨٥ (وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ )- یہ کائنات ایک با مقصد تخلیق ہے کوئی کھیل تماشا نہیں۔ ہندو مائتھالوجی کی طرز پر یہ کوئی رام کی لیلا نہیں ہے کہ رام جی جس کو چاہیں راجہ بنا کر تخت پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں تخت سے نیچے پٹخ دیں بلکہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تخلیق با معنی اور با مقصد ہے۔ اس حقیقت کو سورة آل عمران میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) ” اے ہمارے رب تو نے یہ کائنات بےمقصد نہیں بنائی تیری ذات اس سے بہت اعلیٰ اور پاک ہے لہٰذا ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ “- (وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ)- چونکہ یہ کائنات اور اس کی ہرچیز حق کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے لہٰذا اس حق کا منطقی تقاضا ہے کہ ایک یوم حساب آئے ‘ لہٰذا قیامت آکر رہے گی۔ اس کائنات کا بغور جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو منطقی سوال اٹھتا ہے کہ پھر انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ اور انسان کے اندر جو اخلاقی حس پیدا کی گئی ہے ‘ اسے پیدائشی طور پر نیکی اور بدی کی جو تمیز دی گئی ہے یہاں دنیا میں اس سے کیا نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ؟ اس دنیا میں تو اخلاقیات کے اصولوں کے برعکس نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہاں چور ڈاکو اور لٹیرے عیش کرتے نظر آتے ہیں اور نیک سیرت لوگ فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا اس صورت حال کا منطقی تقاضا ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو جس میں ہر شخص کا پورا پورا حساب ہو اور ہر شخص کو ایسا صلہ اور بدلہ ملے جو اس کے اعمال کے عین مطابق ہو۔- (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ )- یہ مجرم لوگ ہماری پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ قیامت آئے گی اور یہ لوگ ضرور کیفر کردار کو پہنچیں گے ‘ مگر ابھی ہم انہیں ڈھیل دینا چاہتے ہیں مزید کچھ دیر کے لیے مہلت دینا چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ فی الحال ان کی دل آزار باتیں برداشت کریں ‘ ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے جواب میں صبر کریں اور احسن انداز میں اس سب کچھ کو نظر انداز کردیں۔ اسّ رویے اور ایسے طرز عمل سے آپ کے درجات بلند ہوں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :47 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی جا رہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ، اس سے گھبراؤ نہیں ۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے ، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے ۔ اس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر ۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲٦ – ۳۵ تا ۳۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: یعنی اس کائنات کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نیک لوگوں کو آخرت میں انعام دیا جائے، اور نافرمانوں کو سزا دی جائے، لہذا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ان کافروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ ان کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا۔ 30: درگزر سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کو تبلیغ نہ کی جائے ؛ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کو سزا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، مکی زندگی میں ان سے لڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی، اور ان کی طرف سے جو اذیتیں مسلمانوں کو پہنچ رہی تھیں، ان کا بدلہ لینے کا بھی حکم نہیں تھا، در گزر کرنے سے یہ مراد ہے کہ فی الحال ان سے کوئی بدلہ بھی نہ لو، اس طرح مسلمانوں کو تکلیفوں کی بھٹی سے گزار کر ان میں اعلی اخلاق پیدا کئے جارہے تھے۔