انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ہے حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئے کہ میں تمام لوگوں کو عذاب الہٰی سے صاف صاف ڈرا دینے والا ہوں ۔ یاد رکھو میرے جھٹلانے والے بھی اگلے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب الہٰی کے شکار ہوں گے ۔ المستعین سے مراد قسمیں کھانے والے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کی تکذیب اور ان کی مخالفت اور ایذاء دہی پر آپس میں قسما قسمی کر لیتے تھے جیسے کہ قوم صالح کا بیان قرآن حکیم میں ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ راتوں رات صلح اور ان کے گھرانے کو ہم موت کے گھاٹ اتار دیں گے اسی طرح قرآن میں ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ مردے پھر جینے کے نہیں الخ ۔ اور جگہ ان کا اس بات پر قسمیں کھانے کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کو کبھی کوئی رحمت نہیں مل سکتی ۔ الغرض جس چیز کو نہ ما نتے اس پر قسمیں کھانے کی انہیں عادت تھی اس لئے انہیں کہا گیا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اور ان ہدایات کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہے کہ لوگو میں نے دشمن کا لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے دیکھو ہشیار ہو جاؤ بچنے اور ہلاک نہ ہونے کے سامان کر لو ۔ اب کچھ لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں اور اسی عرصہ میں چل پڑتے ہیں اور دشمن کے پنجے سے بچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور وہیں بےفکری سے پڑے رہتے ہیں کہ ناگاہ دشمن کا لشکر آ پہنچا ہے اور گھیر گھار کر انہیں قتل کر دیتا ہے پس یہ ہے مثال میرے ماننے والوں کی اور نا ماننے والوں کی ۔ ان لوگوں نے اللہ کی ان کتابوں کو جو ان پر اتری تھیں پارہ پارہ کر دیا جس مسئلے کو جی چاہا مانا جس سے دل گھبرایا چھوڑ دیا ۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے کفار کا کتاب اللہ کی نسبت یہ کہنا ہے کہ یہ جادو ہے ، یہ کہانت ہے ، یہ اگلوں کی کہانی ہے ، اس کا کہنے والا جادوگر ہے ، مجنوں ہے ، کاہن ہے وغیرہ ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس سرداران قریش جمع ہوئے حج کا موسم قریب تھا اور یہ شخص ان میں بڑا شریف اور ذی رائے سمجھا جاتا تھا اس نے ان سب سے کہا کہ دیکھو حج کے موقع پر دور دراز سے تمام عرب یہاں جمع ہوں گے ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارے اس ساتھی نے ایک اودھم مچا رکھا ہے لہذا اس کی نسبت ان بیرونی لوگوں سے کیا کہا جائے یہ بتاؤ اور کسی ایک بات پر اجماع کر لو کہ سب وہی کہیں ۔ ایسا نہ ہو کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے اس سے تو تمہارا اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ پردیسی تمہیں جھوٹا خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا ابو عبد شمس آپ ہی کوئی ایسی بات تجویز کر دیجئے اس نے کہا پہلے تم اپنی تو کہو تاکہ مجھے بھی غور و خوض کا موقعہ ملے انہوں نے کہا پھر ہماری رائے میں تو ہر شخص اسے کاہن بتلائے ۔ اس نے کہا یہ تو واقعہ کے خلاف ہے لوگوں نے کہا پھر مجنوں بالکل درست ہے ۔ اس نے کہا یہ بھی غلط ہے کہا اچھا تو شاعر کہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ شعر جانتا ہی نہیں کہا اچھا پھر جادوگر کہیں ؟ کہا اسے جادو سے مس بھی نہیں اس نے کہا سنو واللہ اس کے قول میں عجب مٹھاس ہے ان باتوں میں سے تم جو کہو گے دنیا سمجھ لے گی کہ محض غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔ گو کوئی بات نہیں بنتی لیکن کچھ کہنا ضرور ہے اچھا بھائی سب اسے جادوگر بتلائیں ۔ اس امر پر یہ مجمع برخاست ہوا ۔ اور اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ روزہ قیامت ایک ایک چیز کا سوال ہو گا ان کے اعمال کا سوال ان سے ان کا رب ضرور کرے گا یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ سے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ہر ایک شخص قیامت کے دن تنہا تنہا اللہ کے سا منے پیش ہو گا جیسے ہر ایک شخص چودہویں رات کے چاند کو اکیلا اکیلا دیکھتا ہے ۔ اللہ فرمائے گا اے انسان تو مجھ سے مغرور کیوں ہو گیا ؟ تونے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ تونے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ ابو العالیہ فرماتے ہیں دو چیزوں کا سو ال ہر ایک سے ہو گا معبود کسے بنا رکھا تھا اور رسول کی مانی یا نہیں ؟ ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں عمل اور مال کا سوال ہو گا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور علیہ السلام نے فرمایا اے معاذ انسان سے قیامت کے دن ہر ایک عمل کا سوال ہو گا ۔ یہاں تک کہ اس کے آنکھ کے سرمے اور اس کے ہاتھ کی گندہی ہوئی مٹی کے بارے میں بھی اس سے سوال ہو گا دیکھ معاذ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ کی نعمتوں کے بارے میں تو کمی والا رہ جائے ۔ اس آیت میں تو ہے کہ ہر ایک سے اس کے عمل کی بابت سوال ہو گا ۔ اور سورہ رحمان کی آیت میں ہے کہ آیت ( فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ 39ۚ ) 55- الرحمن:39 ) کہ اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کا سوال نہ ہو گا ان دونوں آیتوں میں بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تطبیق یہ ہے کہ یہ سو ال نہ ہو گا کہ تونے یہ عمل کیا ؟ بلکہ یہ سوال ہو گا کہ کیوں کیا ؟
وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ : یہاں صرف ڈرانے کا ذکر ہے، خوش خبری کا نہیں، اس لیے کہ بات منکروں کے متعلق ہو رہی ہے۔ ” النذیر المبین “ (کھلم کھلا ڈرانے والا) کی تفسیر میں وہ حدیث عین حسب حال ہے جو ابو موسیٰ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمائی : ( إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہِ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَی قَوْمًا فَقَالَ یَا قَوْمِ إِنِّيْ رَأَیْتُ الْجَیْشَ بِعَیْنَيَّ ، وَإِنِّيْ أَنَا النَّذِیْرُ الْعُرْیَانُ ، فَالنَّجَاءَ ، فَأَطَاعَہُ طَاءِفَۃٌ مِنْ قَوْمِہِ فَأَدْلَجُوْا فَانْطَلَقُوْا عَلٰی مَہْلِہِمْ فَنَجَوْا، وَ کَذَّبَتْ طَاءِفَۃٌ مِنْھُمْ فَأَصْبَحُوْا مَکَانَھُمْ ، فَصَبَّحَہُمُ الْجَیْشُ فَأَھْلَکَھُمْ وَاجْتَاحَھُمْ ، فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِيْ فَاتَّبَعَ مَا جِءْتُ بِہِ ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِيْ وَکَذَّبَ بِمَا جِءْتُ بِہِ مِنَ الْحَقِّ ) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٧٢٨٣ ] ” میری مثال اور اللہ نے جو کچھ دے کر مجھے بھیجا اس کی مثال اس آدمی کی مثال جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ” اے میری قوم میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں ننگا ڈرانے والا ہوں (پہلے زمانے میں لوگ دشمن سے ڈرانے کے لیے چیخنے چلانے کے ساتھ کپڑے بھی اتار دیتے تھے، ان سے تشبیہ دی ہے) سو تم بچ جاؤ، بچ جاؤ، اس کی قوم میں سے ایک گروہ نے اس کا کہنا مان لیا، وہ اندھیرے ہی میں چل پڑے اور آرام سے چلتے ہوئے بچ نکلے اور ایک گروہ نے اسے جھٹلا دیا اور صبح تک اسی جگہ رہے۔ صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کیا اور انھیں ہلاک اور نیست و نابود کردیا، سو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس کی (مثال) جس نے میری نافرمانی کی اور اس حق کو جھٹلا دیا جو لے کر میں آیا ہوں۔ “
وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ 89ۚ- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
آیت ٨٩ (وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ )- میری اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو واضح طور پر خبردار کر دوں۔