Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک انزلنا کا مفعول العذاب محذوف ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں کھل کر ڈرانے والا ہوں عذاب سے، مثل اس عذاب کے، جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے قریش قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کردیا، اس کے بعض حصے کے شعر، بعض کو سحر (جادو) بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیر الأولین (پہلوں کی کہانیاں (قرار دیا، بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ہے جنہوں نے آپس میں قسم کھائی تھی کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کردیں گے (تَقَاسَمُوْا باللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ) 27 ۔ النمل :49) اور آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ عضین کے ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اس کی بعض باتوں پر ایمان رکھنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ ۔۔ : ” الْمُقْتَسِمِيْنَ “ یہ ” قَسْمٌ“ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے، ” تقسیم کرنے والے۔ “ قرطبی نے فرمایا : ” عِضِیْنَ “ ” عِضَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کسی چیز کا جز یا ٹکڑا ہے۔ ” عَضَا یَعْضُوْ عَضْوًا الشَّیْءَ “ اور ” عَضّٰی یُعَضِّی الشَّیْءَ “ ” کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ “ ہر ٹکڑا ” عِضَۃٌ“ کہلاتا ہے، اس کے آخر سے واؤ حذف کرکے تاء لائی گئی ہے۔ ” اَلْقُرْاٰنَ “ قرآن مجید کا نام ہے، پہلے انبیاء کی کتابوں کو بھی ” قرآن “ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی پڑھی جاتی تھیں، گویا کتاب اور قرآن کا لفظ سب کے لیے ہے۔ ہمارے قرآن کے لیے عموماً ” ھٰذَا الْقُرْآنُ “ یا ” ذٰلِکَ الْکِتَابُ “ وغیرہ کا اشارہ ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خُفِّفَ عَلٰی دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْقُرْآنُ فَکَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّہِ فَتُسْرَجُ فَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّہُ )[ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و آتینا داود زبورا ) : ٣٤١٧ ] ” داؤد (علیہ السلام) پر قرآن (پڑھنا) بہت ہلکا کردیا گیا تھا، چناچہ وہ اپنی سواریوں کے متعلق حکم دیتے تو ان پر زین ڈالی جاتی اور آپ سواریوں پر زین ڈالے جانے سے پہلے قرآن پڑھ لیتے تھے۔ “ - ان آیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جو امام المفسرین طبری (رض) نے پسند فرمائی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ” كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ “ (جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا) کا تعلق پچھلی کس آیت اور کس لفظ کے ساتھ ہے اور اس مشبہ بہ کا مشبہ کیا ہے اور ” اَنْزَلْنَا “ (ہم نے اتارا) سے کیا چیز اتارنا مراد ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ” اَنْزَلْنَا “ کا مفعول محذوف ہے ” اَلْعَذَابَ “ یعنی ہم نے عذاب اتارا اور ” كَمَآ اَنْزَلْنَا “ کا تعلق اس سے پہلی آیت : (وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ ) کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہے، اے نبی کہہ دے کہ بیشک میں تو تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، اس قسم کے عذاب سے جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا تھا جنھوں نے (اپنی) کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ یعنی اس کے بعض حصوں کو مان لیا اور بعض کو نہ مانا۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طرح کے بعض کاموں کا ذکر کرکے فرمایا : ( ۭاَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ) [ البقرۃ : ٨٥ ] ” پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ “ اور اس کی جزا دنیا کی رسوائی اور آخرت میں سخت ترین عذاب بیان فرمائی۔ اب یہاں آپ کے زمانے کے اسرائیلیوں کو اس قسم کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے جو ان سے پہلوں پر آیا تھا، کیونکہ وہ بھی تورات کے بعض حصوں کا صاف انکار کرتے تھے، مثلاً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی تاکید والی آیات۔ اور قریش کو بھی کہ کتاب اللہ کے بعض حصوں کو جھٹلانے والوں پر جس طرح عذاب آیا میں تمہیں بھی ویسے ہی عذاب سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، کیونکہ تم نے بھی جھٹلانے کی روش اختیار کر رکھی ہے اور تم قرآن کے بعض حصوں کو ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں ہو، چناچہ تم بھی بتوں کی مذمت کی آیات نکال دینے پر ایمان لانے کی پیش کش کرتے ہو، فرمایا : (وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ ) [ القلم : ٩ ] ” وہ چاہتے ہیں کاش تو نرمی کرے تو وہ بھی نرمی کریں۔ “ اسی طرح ان کا یہ مطالبہ بھی ذکر فرمایا کہ اس قرآن کے علاوہ اور قرآن لے آؤ، یا اس میں تبدیلی کر دو ۔ (دیکھیے یونس : ١٥) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” کَمَا اَنْزَلْنَا “ کا تعلق آیت (٨٧) (وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ ) سے ہے اور ” اَنْزَلْنَا “ کا مفعول محذوف ” اَلْکِتَابَ “ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا فرمائے، جیسے ان لوگوں پر کتاب نازل کی تھی جنھوں نے اپنی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، کسی حصے کو مان لیا کسی کو نہ مانا، جب ہم ان پر کتاب نازل کرسکتے ہیں تو آپ پر، جن کی پاکیزہ زندگی کے یہ لوگ چالیس سالہ گواہ ہیں، ہم سبع مثانی اور قرآن عظیم کیوں نازل نہیں کرسکتے یہ تفسیر بھی اچھی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ 90۝ۙ- وقوله : كَما أَنْزَلْنا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ- [ الحجر 90] أي : الذین تَقَاسَمُوا شعب مكّة ليصدّوا عن سبیل اللہ من يريد رسول اللہ «1» ، وقیل : الذین تحالفوا علی كيده عليه الصلاة والسلام «2» .- او رآیت کریمہ ؛كَما أَنْزَلْنا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ [ الحجر 90] جس طرح ان لوگوں پر نازل کیا جنہوں نے تقسیم کردیا ۔ میں مقتسمین سے وہ لوگ مراد ہیں جو مکہ کی مختلف گھاٹیوں میں بٹ کر بیٹھ گئے تھے ۔ تاکہ نووارد لوگوں کو اسلام سے روکیں اور رسول اللہ تک پہنچنے نہ دیں ۔ بعض کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ کے خلاف شازش کرنے پر قسمیں کھائی تھیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani