Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] قسمیں کھانے والے اور ان پر عذاب کا نزول :۔ اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ اگر مقتسمین کے معنی تقسیم کرنے والے یا بانٹ لینے والے، قرار دیا جائے۔ اس صورت میں یہود و نصاریٰ دونوں ہیں جنہوں نے قرآن کے بعض حصوں کو تو تسلیم کیا اور بعض حصوں کا انکار کردیا اور بعض کے نزدیک ان سے مراد کفار مکہ ہیں۔ جن کا مطالبہ یہ تھا کہ قرآن کی جن آیات میں ہمارے بتوں کی توہین ہوتی ہے وہ نکال دو پھر باقی باتیں ہم مان لیں گے اور بعض کے نزدیک ان سے مراد صرف تفرقہ باز یہود ہیں اور قرآن سے مراد ان کی کتاب اللہ تورات ہے۔ ان لوگوں نے کتاب اللہ کے بعض حصوں کو مان کر، بعض کا انکار کرکے، بعض آیات کو چھپا کر اور بعض کو تحریف لفظی یا معنوی کرکے بیسیوں فرقے بنا ڈالے تھے اور ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً اپنی تنبیہات یا عذاب نازل فرمایا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مقتسمین کے معنی باہم قسمیں کھانے والے قرار دیا جائے۔ اس صورت میں اس سے مراد وہ لوگ یا وہ قومیں ہیں جنہوں نے انبیاء کی تکذیب یا بعض دوسری جھوٹی باتوں پر قسمیں کھائی تھیں اور انہوں نے کتب سماویہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے۔ حافظ ابن کثیر اسی معنی کی تائید کرتے ہیں۔ اور اس معنی کی تائید میں کئی آیات پیش کی ہیں۔ مثلاً قوم ثمود نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ ہم رات کو شبخون مار کر سیدنا صالح اور ان کے گھر والوں کو قتل کر ڈالیں گے (٢٧: ٤٩) یا مثلاً کافروں نے پختہ قسمیں کھا کر کہا کہ جو مرچکا ہے اللہ اسے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا۔ (١٦: ٣٨) یا قریش مکہ نے قسمیں کھا کر کہا تھا کہ ان کی شان و شوکت کو زوال نہیں آئے گا۔ (١٤: ٢٤) یا اعراف والے دوزخیوں کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ کیا یہی اہل جنت وہ لوگ نہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ ان پر کبھی رحمت نہیں کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سب لوگوں پر عذاب آیا اور قیامت کو ان سے سختی سے بازپرس بھی ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ 91؀- عض - العَضُّ : أَزْمٌ بالأسنان . قال تعالی: عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ [ آل عمران 119] ، وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ [ الفرقان 27] ، وذلک عبارة عن النّدم لما جری به عادة الناس أن يفعلوه عند - ذلك، والعُضُّ للنّوى «1» ، والذي يَعَضُّ عليه الإبلُ ، والعِضَاضُ : مُعَاضَّةُ الدّوابِّ بعضها بعضا، ورجلٌ مُعِضٌّ: مبالغٌ في أمره كأنّه يَعَضُّ عليه، ويقال ذلک في المدح تارة، وفي الذّمّ تارة بحسب ما يبالغ فيه، يقال : هو عِضُّ سفرٍ ، وعِضٌّ في الخصومة «2» ، وزمنٌ عَضُوضٌ: فيه جدب، والتَّعْضُوضُ : ضربٌ من التّمر يصعُبُ مَضْغُهُ.- ( ع ض ض ) العض ۔ کسی چیز کو دانت سے پکڑ لینا یا کاٹنا قرآن میں ہے ۔ عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ [ آل عمران 119] تم پر غصے سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ، وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ [ الفرقان 27] اور جس دن ناعاقبت اندلیش ظالم اپنے ہی ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھا ئیگا ۔ میں ندامت سے کنایہ ہے کیونکہ عام طور پر دیکھا جا تا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام پر اتنباہ درجہ پشمان ہوتا ہے تو دانت سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ العض کھجور کی گٹھلی ۔ خاردار جھاڑی جسیے اونٹ کھاتے ہیں ۔ العضاض جانوروں کا ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹنا ۔ رجل معص اپنے کا م نہایت کوشش کرنے والا ادمی ۔ گویا وہ اسے دانتوں سے پکڑے ہوئے ہے اور کام کی نوعیت کے عتبار سے کبھی یہ لفظ بطور تعریف استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مذمت ۔ ھو عص سفر وہ سفر پر بہت قدرت رکھتا ہے ۔ ھو عض فی الخصومتہ وہ جھگڑنے میں نہایت فصیح اور سخنور ہے ۔ زمن عضوض خشک سال ۔ التعضوض ایک قسم کی کجھور جو دشواری کے ساتھ چبا کر کھائی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ )- اس آیت کے مفہوم کے سلسلے میں مفسرین نے مختلف آراء بیان کی ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ قرین قیاس رائے یہ ہے کہ یہاں لفظ ” قرآن “ کا اطلاق تورات پر ہوا ہے۔ جیسا کہ سورة سبا کی آیت ٣١ میں فرمایا گیا : (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ ) یعنی کفار کہتے ہیں کہ نہ اس قرآن پر ایمان لاؤ اور نہ اس پر جو اس سے پہلے تھا۔ تو گویا تورات بھی قرآن ہی تھا اور یہود نے اپنے مفادات کے لیے اپنے اس قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ ان کے اس کارنامے کا تذکرہ سورة الانعام کی آیت ٩١ میں اس طرح ہوا ہے : (تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا) ” تم نے اس (تورات) کو ورق ورق کردیا ہے ‘ ان میں سے کسی حصے کو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپا کر رکھتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :52 اس گروہ سے مراد یہود ہیں ۔ ان کو مُقْتَسِمِیْن اس معنی میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے دین کو تقسیم کر ڈالا ، اس کی بعض باتوں کو مانا ، اور بعض کو نہ مانا ، اور اس طرح طرح کی کمی و بیشی کر کے بیسیوں فرقے بنا لیے ۔ ان کے ”قرآن“ سے مراد توراۃ ہے جو ان کو اسی طرح دی گئی تھی جس طرح امت محمدیہ کو قرآن دیا گیا ہے ۔ اور اس ” قرآن “ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے سے مراد وہی فعل ہے جسے سورہ بقرہ آیت ۸۵ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ( کیا تم کتاب اللہ کی بعض باتوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟ ) ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ تنبیہ جو آج تم کو کی جا رہی ہے یہ ویسی ہی تنبیہ ہے جیسی تم سے پہلے یہود کو کی جا چکی ہے ، تو اس سے مقصود در اصل یہود کے حال سے عبرت دلانا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے خدا کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے غفلت برت کر جو انجام دیکھا ہے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اب سوچ لو ، کیا تم بھی یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: اس سے مراد یہود اور عیسائی ہیں، انہوں نے اپنی کتابوں کے حصے بخرے اس طرح کئے تھے کہ اس کے جس حکم کو چاہتے مان لیتے اور جس کی چاہتے خلاف ورزی کرتے تھے۔