اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : ہم ان سے نبٹ لیں گے، آپ بےخوف و خطر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے رہیے۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے والے (بڑے بڑے یہ پانچ) آدمی تھے، ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث زہری، ابوزمعہ اسود بن مطلب، حارث بن عیطل سہمی اور عاص بن وائل۔ جبریل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ نے ان سے مذاق اڑانے والوں کی شکایت کی۔ حدیث لمبی ہے، خلاصہ یہ کہ جبریل (علیہ السلام) نے ان کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کی طرف اشارہ کیا اور وہ پانچوں بری طرح فوت ہوئے۔ [ السنن الکبریٰ للبیہقی : ٩؍٨، ح : ١٨١٨٧ ] جو مذاق اڑانے والے باقی رہے ان کا انجام عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمایا : ( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّيْ عِنْدَ الْبَیْتِ ، وَ أَبُوْجَھْلٍ وَأَصْحَابٌ لَہُ جُلُوْسٌ، إذْ قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ أَیُّکُمْ یَجِيْءُ بِسَلَی جَزُوْرِ بَنِيْ فُلاَنٍ فَیَضَعُہُ عَلٰی ظَھْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَی الْقَوْمِ ، فَجَاءَ بِہِ فَنَظَرَ حتّٰی إِذَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَہُ عَلٰی ظَھْرِہِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ وَأَنَا أَنْظُرُ ، لاَ أُغْنِيْ شَیْءًا، لَوْ کَانَتْ لِيْ مَنَعَۃٌ، قَالَ فَجَعَلُوْا یَضْحَکُوْنَ وَیُحِیْلُ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ حَتّٰی جَاءَ تْہُ فَاطِمَۃُ فَطَرَحَتْہُ عَنْ ظَہْرِہِ ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَشَقَّ عَلَیْھِمْ إِذْ دَعَا عَلَیْھِمْ ، قَالَ وَکَانُوْا یَرَوْنَ أنَّ الدَّعْوَۃَ فِيْ ذٰلِکَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَۃٌ، ثُمَّ سَمَّی اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِأَبِيْ جَھْلٍ ، وَعَلَیْکَ بِعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، وَالْوَلیْدِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، وَعُقَبَۃَ بْنِ أَبِيْ مُعَیْطٍ ، وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ نَحْفَظْہُ ، قَالَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَقَدْ رَأَیْتُ الَّذِیْنَ عَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَرْعَی فِي الْقَلِیْبِ قَلِیْبِ بَدْرٍ ) [ بخاری، الوضوء، باب إذا ألقي علٰی ظہر المصلي قدر۔۔ : ٢٤٠ ] ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے کچھ ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے آپس میں کہا کہ تم میں سے کون ہے جو بنو فلاں کی ذبح کردہ اونٹنی کی اوجھڑی و بچہ دانی وغیرہ اٹھا کر لائے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دے۔ تو ان میں سے سب سے بدبخت شخص اٹھا اور اس نے وہ اوجھڑی وغیرہ لا کر آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ میں دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کرسکتا تھا، کاش مجھ میں آپ کے دفاع کی طاقت ہوتی۔ تو وہ سب ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے ہی میں رہے، سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ فاطمہ (رض) آئیں اور اسے آپ کی کمر سے اتار پھینکا، تو آپ نے سر اٹھایا اور کہا : ” یا اللہ قریش کو پکڑ۔ “ آپ کی یہ بددعا ان پر بڑی شاق گزری، وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ نے نام لے کر فرمایا : ” اے اللہ ابوجہل کو پکڑ، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ۔ “ ایک ساتواں بھی گنا جو ہمیں یاد نہیں رہا۔ “ ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ” پھر اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان تمام آدمیوں کو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گنے تھے، بدر کے کنویں میں ہلاک شدہ گرے ہوئے دیکھا۔ “
(آیت) اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ میں جن لوگوں کا ذکر ہے ان کے لیڈر پانچ آدمی تھے عاص بن وائل، اسود بن المطلب، اسود بن عبدی، غوث ولید بن مغیرہ، حارث بن الطلاطلۃ یہ پانچوں معجزانہ طور پر ایک ہی وقت میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے اشارے سے ہلاک کردیئے گئے اس واقعہ سے تبلیغ و دعوت کے معاملہ میں یہ حاصل ہوا کہ اگر انسان کسی ایسے مقام یا ایسے حال میں مبتلا ہوجائے کہ وہاں حق بات کو علی الاعلان کہنے سے ان لوگوں کو تو کوئی فائدہ پہنچنے کی توقع نہ ہو اور اپنے آپ کو نقصان و تکلیف اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں یہ کام خفیہ طور پر کرنا بھی درست اور جائز ہے البتہ جب اظہار و اعلان کی قدرت ہوجائے تو پھر اعلان میں کوتاہی نہ کی جائے۔
اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ 95ۙ- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- اسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ .- ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] .- الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔
(٩٥۔ ٩٦) اور یہ لوگ جو آپ پر ہنستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے اور دوسرے معبود قرار دے رکھے ہیں تو ہم ان ہنسنے والوں کی ہنسی کو ضرور آپ سے دور کردیں گے، سو ان کو ابھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا معاملہ فرماتے ہیں۔- چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دن ایک رات میں ہر ایک پر نیا عذاب نازل کرکے ہلاک کردیا اور یہ بدبخت پانچ تھے چناچہ عاص بن وائل سہمی کو تو کسی چیز نے ڈس لیا اور وہ اسی جگہ فورا امر گیا۔- اور حارث بن قیس سہمی نے نمکین یا تازہ مچھلی کھالی، اس کے بعد اسے پیاس لگی، اس نے پانی پی لیا، بدبخت کا اس سے پیٹ پھٹ گیا اور اسی جگہ پر مرگیا۔- اور اسود بن عبدالمطلب کا سر حضرت جبریل (علیہ السلام) نے درخت سے اور اس کا منہ کانٹوں سے ٹکرا دیا اور وہ اسی مرگیا، اور اسود بن عبد یغوث سخت گرمی میں باہر نکلا تو اس کو زہر چڑھ گیا جس سے حبشی کی طرح سیاہ فام ہوگیا اپنے گھر واپس آیا تو گھروالوں نے دروازہ نہیں کھولا تو اس نے اپنا سر دروازہ پر مارا اسی سے مرگیا، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے۔- اور ولید بن مغیرہ مخزومی کے تیر کی نوک لگ گئی، اسی سے مرگیا، اللہ تعالیٰ ان بدبختوں کو اپنی رحمت سے دور کرے، سب کے سب مرنے کے وقت یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے مار ڈالا۔- شان نزول : (آیت ) ” انا کفینک “۔ (الخ)- بزار، طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ مکرمہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا تو وہ بدبخت آپ کی گدی میں کو نچے مارنے لگے کہ یہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں نبی ہوں اور میرے ساتھ جبریل امین (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے ایک کونچا مارا جو ان کے جسموں میں ناخن کی طرح لگا اور اس سے ایسے بدبودار زخم ہوئے کہ کوئی ان کے قریب بھی نہ جاسکتا (اور اسی حالت میں مرگئے) تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی یہ لوگ جو ہنستے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں ان سے آپ کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔
آیت ٩٥ (اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ )- آپ ان کی مخالفت کی پروا نہ کریں ہم ان سے اچھی طرح نمٹ لیں گے۔ یہ لوگ آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے۔