Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے مخالفین کا عبرتناک انجام حکم ہو رہا ہے کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کی باتیں لوگوں کو صاف صاف بےجھجک پہنچا دیں نہ کسی کی رو رعایت کیجئے نہ کسی کا ڈر خوف کیجئے ۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ تبلیغ فرماتے تھے لیکن اس کے بعد آپ اور آپ کے اصحاب نے کھلے طور پر اشاعت دین شروع کر دی ۔ ان مذاق اڑانے والوں کو ہم پر چھوڑ دے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے تو اپنی تبلیغ کے فریضے میں کوتاہی نہ کر یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا سی سستی آپ کی طرف سے دیکھیں تو خود بھی دست بردار ہو جائیں ۔ تو ان سے مطلقا خوف نہ کر اللہ تعالیٰ تیری جانب اتارا گیا لوگوں کی برائی سے تجھے محفوظ رکھ لے گا ۔ چنانچہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے جا رہے تھے کہ بعض مشرکوں نے آپ کو چھیڑا اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہیں نشتر مارا جس سے ان کے جسموں میں ایسا ہو گیا جیسے نیزے کے زخم ہوں اسی میں وہ مر گئے اور یہ لوگ مشرکین کے بڑے بڑے رؤسا تھے ۔ بڑی عمر کے تھے اور نہایت شریف گنے جاتے تھے ۔ بنو اسد کے قبیلے میں تو اسود بن عبد المطلب ابو زمعہ ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی دشمن تھا ۔ ایذائیں دیا کرتا تھا اور مذاق اڑایا کرتا تھا آپ نے تنگ آ کر اس کے لئے بد دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ اسے اندھا کر دے بے اولاد کر دے ۔ بنی زہر میں سے اسود تھا اور بنی مخزوم میں سے ولید تھا اور بنی سہم میں سے عاص بن وائل تھا ۔ اور خزاعہ میں سے حارث تھا ۔ یہ لوگ برابر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء رسائی کے درپے لگے رہتے تھے اور لوگوں کو آپ کے خلاف ابھارا کرتے تھے اور جو تکلیف ان کے بس میں ہوتی آپ کو پہنچایا کرتے جب یہ اپنے مظالم میں حد سے گزر گئے اور بات بات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ( فاصدع سے یعلمون ) تک کی آیتیں نازل فرمائیں ۔ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے بیت اللہ شریف میں آپ کے پاس کھڑے ہو گئے اتنے میں اسود بن عبد یغوث آپ کے پاس سے گزرا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اسے پیٹ کی بیماری ہو گئی اور اسی میں وہ مرا ۔ اتنے میں ولید بن مغیرہ گزرا اس کی ایڑی ایک خزاعی شخص کے تیر کے پھل سے کچھ یونہی سی چھل گئی تھی اور اسے بھی دو سال گزر چکے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسی کی طرف اشارہ کیا وہ پھول گئی ، پکی اور اسی میں وہ مرا ۔ پھر عاص بن وائل گزرا ۔ اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا کچھ دنوں بعد یہ طائف جانے کے لئے اپنے گدھے پر سوار چلا ۔ راستے میں گر پڑا اور تلوے میں کیل گھس گئی جس نے اس کی جان لی ۔ حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا اسے خون آنے لگا اور اسی میں مرا ۔ ان سب موذیوں کو سردار ولید بن مغیرہ تھا اسی نے انہیں جمع کیا تھا پس یہ پانچ یا سات شخص تھے جو جڑتھے اور ان کے اشاروں سے اور ذلیل لوگ بھی کمینہ پن کی حرکتیں کرتے رہتے تھے ۔ یہ لوگ اس لغو حرکت کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے تھے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے ۔ انہیں اپنے کرتوت کا مزہ ابھی ابھی آ جائے گا ۔ اور بھی جو رسول کا مخالف ہو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کا یہی حال ہے ۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی بکو اس سے اے نبی تمہیں تکلیف ہوتی ہے دل تنگ ہوتا ہے لیکن تم ان کا خیال بھی نہ کرو ۔ اللہ تمہارا مدد گا رہے ۔ تم اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح اور حمد میں لگے رہو ۔ اس کی عبادت جی بھر کر کرو نماز کا خیال رکھو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دو ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفایت کروں گا ۔ حضور علیہ السلام کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آ پڑتا تو آپ نماز شروع کر دیتے ۔ یقین کا مفہوم یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورہ مدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ جہنمی اپنی برائیاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت ام العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا تجھے کیسے یقین ہو گیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا انہوں نے جواب دیا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہو گا جس کا اکرام ہو ؟ آپ نے فرمایا سنو اسے موت آ چکی اور مجھے اس کیلئے بھلائی کی امید ہے اس حدیث میں بھی موت کی جگہ یقین کا لفظ ہے ۔ اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کر لے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کر ، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر ، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر ۔ بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑ لی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہو جاتی ہے یہ سراسر کفر ضلالت اور جہالت ہے ۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیا اور حضور سرور انبیاء علیہم السلام اور آپ کے اصحاب معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے ۔ پس ثابت ہے کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے تمام مفسرین صحا بہ تابعین و غیرہ کا یہی مذہب ہے فالحمد للہ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کر تے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پاتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کر تے ہیں کہ وہ بہترین اور کامل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جواد ہے اور کریم ہے ۔ الحمد للہ سورہ حجر کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے و الحمد للہ رب العلمین ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 اَ صْدَعْ کے معنی ہیں کھول کر بیان کرنا، اس آیت کے نزول سے قبل آپ چھپ کر تبلیغ فرماتے تھے، اس کے بعد آپ نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کردی۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] علی الاعلان تبلیغ رسالت کا حکم :۔ ابتداًء دعوت اسلام کا آغاز خفیہ طور پر ہوتا رہا اور یہ دور تین سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ پھر وہ دور آیا جب مسلمان خانہ ارقم سے باہر اپنے اپنے گھروں کی بعض کھلی جگہوں پر نمازیں ادا کرتے اور قرآن پڑھتے تھے۔ اس دور میں قریش نے پابندی لگا رکھی تھی کہ مسلمان بلند آواز سے قرآن نہ پڑھا کریں کیونکہ اس سے ان کے بچے اور عورتیں متاثر ہوتی ہیں نیز ان پر کعبہ میں نماز ادا کرنے یا قرآن پڑھنے پر بھی پابندی تھی اور قریش کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر چند سال بعد یہ دور آیا جب اللہ تعالیٰ نے علی الاعلان تبلیغ کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ اس سلسلہ میں شرک کرنے والوں کے استہزاء کی مطلق پروا نہ کریں ہم ایسے لوگوں سے خود نمٹ لیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ۔۔ : ” صَدَعَ یَصْدَعُ ، الْأَمْرَ “ کسی معاملے کو خوب کھول کر بیان کرنا اور ” صَدَعَ بالْحَقِّ “ کھلم کھلا بلند آواز سے حق کا اظہار کرنا۔ شروع میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خفیہ اسلام کی دعوت دیتے تھے، اس کے بعد ان آیات میں چھپ کر دعوت دینے کے بجائے صاف اعلانیہ طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام سنانے کا اور مشرکین کی پروا نہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کرنے کا حکم ہوا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے خود نمٹنے کا ذمہ اٹھایا جو آپ سے استہزا کرتے اور ٹھٹھا اڑاتے تھے۔ یہ حکم مکہ میں نازل ہوا، مدینہ گئے تو وہاں کفار اور اہل کتاب سے جنگ شروع ہوئی اور خطرے کے پیش نظر صحابہ کرام (رض) آپ کا پہرا دیتے تھے، جب سورة مائدہ کی آیت (٦٧) (يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) (اے رسول پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر تو نے نہ کیا تو تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا) اتری تو آپ نے خیمہ سے سر نکال کر پہرے داروں سے فرمایا : ( یَا أَیُّھَا النَّاسُ انْصَرِفُوْا، فَقَدْ عَصَمَنِيَ اللّٰہُ ) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة المائدۃ : ٣٠٤٦۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٥؍٦٤٤، ح : ٢٤٨٩ ] ” لوگو چلے جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ کردیا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تبلیغ و ارشاد میں تدریج بقدر استطاعت :- فَاصْدَعْ بِمَا تُؤ ْمَرُ ۔ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) اجمعین چھپ چھپ کر عبادت اور تلاوت کرتے تھے اور تبیلغ و ارشاد کا سلسلہ بھی خفیہ ہے ایک ایک دو دو فرد کے ساتھ جاری تھا کیونکہ اظہار و اعلان میں کفار کی ایذاء رسانی کا خطرہ تھا اس آیت میں حق تعالیٰ نے استہزاء کرنے والے اور ایذاء دینے والے کفار کی ایذا سے محفوظ رکھنے کی خود ذمہ داری لے لی اس لئے اس وقت بےفکری کے ساتھ اعلان و اظہار کے ذریعہ تلاوت و عبادت اور تبلیغ و دعوت کا سلسلہ شروع ہوا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94؀- صدع - الصَّدْعُ : الشّقّ في الأجسام الصّلبة کالزّجاج والحدید ونحوهما . يقال : صَدَعْتُهُ فَانْصَدَعَ ، وصَدَّعْتُهُ فَتَصَدَّعَ ، قال تعالی: يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم 43] ، وعنه استعیر :- صَدَعَ الأمرَ ، أي : فَصَلَهُ ، قال : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] ، وکذا استعیر منه الصُّدَاعُ ، وهو شبه الاشتقاق في الرّأس من الوجع . قال : لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ- [ الواقعة 19] ، ومنه الصَّدِيعُ للفجر «1» ، وصَدَعْتُ الفلاة : قطعتها «2» ، وتَصَدَّعَ القومُ أي : تفرّقوا .- ( ص د ع ) الصدع - کے معنی ٹھوس اجسام جیسے شیشہ لوہا وغیرہ میں شگاف ڈالنا کے ہیں ۔ صدع ( ف) وصدع متعدی ہے اور انصدع وتصدع لازم اسی سے استعارہ کے طور پر صدع الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے ظاہر اور واضح کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ) ملا ہے اسے کھول کر بیان کرو۔ اور اسی سے صداع کا لفظ مستعار ہے جس کے معنی دوسرے کے ہیں جس سے گویا سر پھٹا جارہا ہو۔ قرآن میں ہے ؛لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] اس سے نہ تو دروسر ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی ۔ اور اسی سے صدیع بمعنی فجر ہے ۔ اور صدعت الفلاۃ کے معنی بیاباں طے کرنے کے ہیں ۔ تصدع القوم لوگ منتشر ہوگئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم 43] اس روز ( سب لوگ ) الگ الگ ہوجائیں گے ۔- - شرك - الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل :- هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، وقال : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 116] ، ومَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، يُبايِعْنَكَ عَلى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً [ الممتحنة 12] ، وقال : سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شاءَ اللَّهُ ما أَشْرَكْنا[ الأنعام 148] .- والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ، وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] ، وقال بعضهم : معنی قوله إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ أي : واقعون في شرک الدّنيا، أي : حبالتها، قال : ومن هذا ما قال عليه السلام :«الشّرک في هذه الأمة أخفی من دبیب النّمل علی الصّفا» «3» قال : ولفظ الشِّرْكِ من الألفاظ المشترکة، وقوله تعالی: فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صالِحاً وَلا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً [ الكهف 110] ، محمول علی الشّركين، وقوله : فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ- [ التوبة 5] ، فأكثر الفقهاء يحملونه علی الكفّار جمیعا - کقوله : وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ... الآية [ التوبة 30] ، وقیل : هم من عدا أهل الکتاب، لقوله : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا [ الحج 17] ، أفرد الْمُشْرِكِينَ عن اليهود والنّصاری.- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملادینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دویادو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز یادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یاسیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکو ا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکۃ فی کذا کے معنی شریک بنالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی جمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام - مخلوق پر شرف بخشتا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فر مانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بد خو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جہنوں نے ان کے لئے ایسا دین منفرد کیا ہے ۔ میرے شریک کہاں ہیں ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرھ عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ اور فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 116] اور جس نے خدا کیساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا ۔ ومَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شریک کریگا خدا اس پر بہشت کو حرام کر دیگا ۔ يُبايِعْنَكَ عَلى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً [ الممتحنة 12] اس بات پر بیعت کر نیکو آئیں کہ خدا کیساتھ نہ شرک کریں گی ۔ سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شاءَ اللَّهُ ما أَشْرَكْنا[ الأنعام 148] جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے دوم شرک صیغہ کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں ۔ بعض نے الا وھم مشرکون کے معنی یہ کئے ہیں کہ مگر وہ شرک یعنی دنیا کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں اور اسی سے (علیہ السلام) نے فرمایا الشرک فی ھذہ الامۃ اخفی من دبیب التمثل یعنی اس امت میں شریک چیوٹی کی چال سے بھی خفی ہوگا پس لفظ شرک الفاظ مشترکہ - سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً [ الكهف 110] پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ مین دونوں قسم کا شرک مراد ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ [ التوبة 5] مشرکوں کو ۔۔۔۔۔۔۔ قتل کردو ۔ میں اکثر فقہاء نے تمام کفار مراد لئے ہیں ۔ کیونکہ یہود بھی ( اہل کتاب تھے عزیز (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے تھے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ... الآية [ التوبة 30] یہود کہتے کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ دوسرے کفار مراد ہیں کیونکہ آیت : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا [ الحج 17] جو لوگ مومن ( یعنی مسلمان ) ہیں در جو یہودی ہیں اور ستارہ پرست اور عیسائی اور محبوسی اور مشرک میں مشرکین کو یہود نصارٰی سے الگ عطف کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب مشرکین سے خارج ہیں ۔ ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ يَشْرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا بِالْآخِرَةِ [ النساء 74] جو لوگ آخرت ( کو خرید تے اور اس ) کے بدلے دنیا کی زندگی کو بیچنا چاہتے ہیں ۔ پھر شراء اور اشتراء کا لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس کے عوض میں دوسری چیز لی جائے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران 77] جو لوگ خدا کے اقراروں کو بیچ کر اس کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ۔ لا يَشْتَرُونَ بِآياتِ اللَّهِ [ آل عمران 199] وہ خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے اشْتَرَوُا الْحَياةَ الدُّنْيا [ البقرة 86] جہنوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى [ البقرة 16] جہنوں نے گمراہی خریدی ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ التوبة 111] خدا نے مومنوں سے خرید لئے ہیں ۔ اور جس چیز کے بدلے اللہ تعالیٰ نے ان کی جانیں خرید کی ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ۔ : يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ [ التوبة 111] ( یعنی خدا کی راہ میں لڑتے اور شہدوں ہوتے ہیں ) اور خوارج اپنے آپ کو شراۃ کے نام سے موسوم کرتے تھے اور آیت : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ [ البقرة 207] اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہو ۔ سے استدلال کرتے تھے کہ یہاں یشری بمنعی یبیع ہے جیسا کہ آیت إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى ... الآية [ التوبة 111] سے معلو م ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ )- اس حکم کو رسول اللہ کی دعوتی تحریک میں ایک نئے موڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے قبل آپ اپنے قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کو انفرادی طور پر دعوت دے رہے تھے ‘ جیسے آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ سے بات کی ‘ اپنے پرانے دوست حضرت ابوبکر صدیق کو دعوت دی ‘ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو اعتماد میں لیا جو آپ کے زیر کفالت بھی تھے اور اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید سے بھی بات کی۔ آپ کی اس انفرادی دعوت کا سلسلہ ابتدائی طور پر تقریباً تین سال پر محیط نظر آتا ہے۔ بعض لوگ اس دور کی دعوت کو ایک خفیہ ( ) تحریک سے تعبیر کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ اعلان نبوت کے بعد آپ کی سیرت میں کوئی دن بھی ایسا نہیں آیا جس میں آپ نے اپنی اس دعوت کو خفیہ رکھا ہو مگر ایسا ضرور ہے کہ آپ کی دعوت فطری اور تدریجی انداز میں آگے بڑھی اور آہستہ آہستہ ارتقا پذیر ہوئی۔ - اس دعوت کا آغاز گھر سے ہوا پھر آپ تعلق اور قرابت داری کی بنیاد پر مختلف افراد کو انفرادی انداز میں دعوت دیتے رہے اور پھر تقریباً تین سال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ اب آپ علی الاعلان یہ دعوت دینا شروع کردیں۔ اس حکم کے بعد آپ نے ایک دن عرب کے رواج کے مطابق کوہ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو اونچی آواز سے اپنی طرف بلانا شروع کیا۔ عرب میں رواج تھا کہ کسی اہم خبر کا اعلان کرنا ہوتا تو ایک آدمی اپنا پورا لباس اتارتا ‘ بالکل ننگا ہو کر کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتا اور ” وَاصَبَاحَا “ کا نعرہ لگاتا کہ ہائے وہ صبح جو آیا چاہتی ہے یعنی میں تم لوگوں کو آنے والی صبح کی خبر دینے والا ہوں اس زمانے میں ایسی خبر عام طور پر کسی مخالف قبیلہ کے شب خون مارنے کے بارے میں ہوتی تھی کہ فلاں قبیلہ آج صبح سویرے تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ ایسے شخص کو ” نذیر عریاں “ کہا جاتا تھا۔ اس رواج کے مطابق (لباس اتارنے کی بیہودہ رسم کو چھوڑ کر) آپ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر ” وَاصَبَاحَا “ کا نعرہ لگایا۔ جس جس نے آپ کی آواز سنی وہ بھاگم بھاگ آپ کے پاس آپہنچا کہ آپ کوئی اہم خبر دینے والے ہیں۔ جب سب لوگ اکٹھے ہوگئے تو آپ نے ان کے سامنے اللہ کا پیغام پیش کیا ‘ جس کے جواب میں آپ کے بدبخت چچا ابو لہب نے کہا : تَبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا ؟ ” تمہارے لیے ہلاکت ہو (نعوذ باللہ) اس کام کے لیے تم نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ “ دعوت کو ڈنکے کی چوٹ بیان کرنے کے اس حکم اور اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علی اعلان تبلیغ کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے آپ انفرادی طور پر تبلیغ فرماتے تھے۔