عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا اللہ تعالیٰ قیامت کی نزد یکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی ۔ چاند پھٹ گیا ۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ۔ ہ کی ضمیر کا مر جع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملز وم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہو چکے ۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیو نکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18 ) 42- الشورى:18 ) بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیو نکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہو گا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو ۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہو گا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ۔
1۔ 1 اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آگئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ کہ اس کا وقوع یقینی ہے۔
[١] قریش پر اللہ کے عذاب کی صورت اور اس کا آغاز ہجرت نبوی سے :۔ مشرکین مکہ اکثر رسول اللہ کو چڑانے کے لیے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جیسے تم کہتے ہو، ہم پر اب تک عذاب آ کیوں نہیں گیا وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر کو عذاب کا وعدہ دیتے دس بارہ سال گزر چکے ہیں اور عذاب تو آیا نہیں لہذا یہ الفاظ گویا ان کا تکیہ کلام بن گئے تھے۔ اور اس بات سے وہ دو باتوں پر استدلال کرتے تھے۔ ایک اپنے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر اور دوسرے پیغمبر اسلام کی نبوت کی تکذیب پر۔ انھیں باتوں کے جواب سے اس سورت کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی بات کا جواب یہ دیا گیا کہ عذاب کا آنا یقینی ہے اس کے لیے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جلد ہی تمہیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے یوں ہی سمجھو کہ وہ سر پر آپہنچا۔- اب رہا یہ سوال کہ وہ عذاب کون سا تھا اور کب آیا ؟ تو اس کے متعلق یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کی ذات جب تک کسی قوم میں موجود ہو اس وقت تک عذاب نہیں آتا۔ آگے پھر دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی کو اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے کر وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے انھیں بچا لیا جاتا ہے اور باقی مجرموں پر قہر الٰہی نازل ہوتا ہے اور عذاب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ انھیں ہجرت کرنے والوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مجرم قوم کی پٹائی کراتا ہے۔ تاآنکہ کفر و شرک کا سر توڑ دیتا ہے۔ عذاب کی ان دونوں صورتوں کا ذکر سورة توبہ کی آیت نمبر ٥٢ میں موجود ہے لہذا ہمارے خیال میں اس عذاب کا نقطہ ئآغاز ہجرت نبوی ہی تھا۔ جس کا حکم اس سورة کے نزول کے تھوڑے ہی عرصہ بعد دے دیا گیا تھا۔ یہی ہجرت مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا سبب بنی اور مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور یہی ہجرت غزوہ بدر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں کفر کی خوب پٹائی ہوئی اور اس ہجرت کے صرف آٹھ دس سال بعد بتدریج کافروں اور مشرکوں کا اس طرح قلع قمع ہوا اور کفر و شرک کا یوں استیصال ہوا کہ سارے عرب سے اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔- [ ٢] یہ ان کے دوسرے استدلال کا جواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتا تو اب تک ہم پر عذاب آچکا ہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہوگئی۔ اور سب کو معلوم ہوگیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے لہذا وہ باطل ہیں۔
اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ :” اَمْرُ اللّٰهِ “ سے مراد قیامت ہے اور مشرکین پر مختلف قسم کے عذاب کا نزول بھی ہے اور ” اَتٰٓى“ (آ گیا) سے مراد بالکل قریب آنا ہے، کیونکہ آ ہی چکا ہو تو پھر کفار کی طرف سے اسے جلدی لانے کا مطالبہ بےمعنی ہے۔ - فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : مشرکین قیامت یا عذاب کا ذکر آنے پر مذاق اڑانے کے لیے اسے فوراً لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دیکھیے سورة انفال ( ٣٢) اور سورة عنکبوت (٥٣ تا ٥٥) لفظ ماضی ” اَتٰٓى“ (آگیا) کا مطلب ہے کہ اس کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو آ ہی چکا، اس لیے جلدی نہ مچاؤ، وہ بالکل قریب ہے اور طے شدہ وقت پر آجائے گا۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ مسلمان بھی بعض اوقات پریشان ہو کر مسلمانوں کے لیے اللہ کی نصرت اور کفر پر عذاب میں تاخیر پر اس کے جلدی آنے کی دعا کرتے تھے، انھیں بھی تسلی دی کہ سمجھو اللہ کا حکم آ ہی گیا، جیسا کہ فرمایا : (حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو، بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ “- سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : عذاب کے جلدی نہ آنے کی و جہ سے وہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ وہ عذاب لا ہی نہیں سکتا، ورنہ فوراً کیوں نہیں لے آتا۔ فرمایا ان کا اللہ تعالیٰ کو اپنا حکم نافذ کرنے سے اور عذاب لانے سے عاجز قرار دینا، یا وعدہ خلافی کرنے والا سمجھنا کفر و شرک کا نتیجہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ ہر طرح پاک اور نہایت بلند ہے۔ وہ نہ عاجز ہے نہ وعدہ خلاف، مگر وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، ان کی فرمائشوں کا پابند نہیں۔ دیکھیے سورة حج (٤٧) ۔- آیت کے شروع میں مخاطب کرکے فرمایا : (فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ) ” تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو “ اور آیت کے آخر میں مشرکین کا ذکر غائب کے لفظ سے کیا : (سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) ” وہ اس سے پاک اور بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں “ اسے التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔
خلاصہ تفسیر :- اس سورة کا نام سورة نحل اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ اس میں نحل یعنی شہد کی مکھیوں کا ذکر قدرت کی عجیب و غریب صنعت کے بیان کے سلسلے میں ہوا ہے اس کا دوسرا نام سورة نعم بھی ہے (قرطبی) نعم بکسر نون نعمت کی جمع ہے اس لئے کہ اس سورة میں خاص طور پر اللہ جل شانہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر ہے۔- خدا تعالیٰ کا حکم (یعنی سزائے کفر کا وقت قریب) آپہنچا سو تم اس میں (منکرانہ) جلدی مت مچاؤ (بلکہ توحید اختیار کرو اور اس کی حقیقت سنو کہ) وہ لوگوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے وہ اللہ تعالیٰ فرشتوں (کی جنس یعنی جبرئیل) کو وحی یعنی اپنا حکم دے کر اپنے بندوں میں جس پر چاہیں (یعنی انبیاء (علیہم السلام) پر) نازل فرماتے ہیں (اور وہ حکم) یہ (ہے) کہ لوگوں کو خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو مجھ سے ہی ڈرتے رہو (یعنی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ سزا ہوگی )- معارف و مسائل :- اس سورة کو بغیر کسی خاص تمہید کے ایک شدید وعید اور ہیبت ناک عنوان سے شروع کیا گیا جس کی وجہ مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ محمد (مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں قیامت سے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غالب کرنے اور مخالفوں کو سزا دینے کا وعدہ کیا ہے ہمیں تو یہ کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ آپہنچا حکم اللہ کا تم جلد بازی نہ کرو۔ - حکم اللہ سے اس جگہ مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول سے کیا ہے کہ ان کے دشمنوں کو زیر و مغلوب کیا جاوے گا اور مسلمانوں کو فتح ونصرت اور عزت و شوکت حاصل ہوگی اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہیبت ناک لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ حکم اللہ کا آپہنچا یعنی پہنچنے ہی والا ہے جس کو تم عنقریب دیکھ لو گے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس میں حکم اللہ سے مراد قیامت ہے اس کے آ پہنچنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کا وقوع قریب ہے اور پوری دنیا کی عمر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قیامت کا قریب ہونا یا آ پہنچنا بھی کچھ بعید نہیں رہتا (بحر محیط)- اس کے بعد کے جملے میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جو حق تعالیٰ کے وعدہ کو غلط قرار دے رہے ہیں یہ کفر و شرک ہے اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں (بحر)- اس آیت کا خلاصہ ایک وعید شدید کے ذریعہ توحید کی دعوت دینا ہے دوسری آیت میں دلیل نقلی سے توحید کا اثبات ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک دنیا کے مختلف خطوں مختلف زمانوں میں جو بھی رسول آیا ہے اس نے یہی عقیدہ توحید پیش کیا ہے حالانکہ ایک کو دوسرے کے حال اور تعلیم کی بظاہر اسباب کوئی اطلاع بھی نہ تھی غور کرو کہ کم از کم ایک لاکھ بیس ہزار حضرات عقلاء جو مختلف اوقات میں مختلف ملکوں مختلف خطوں میں پیدا ہوں اور وہ سب ایک ہی بات کے قائل ہوں تو فطرۃ انسان یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ بات غلط نہیں ہو سکتی ایمان لانے کے لئے تنہا یہ دلیل بھی کافی ہے۔- لفظ روح سے مراد اس آیت میں بقول ابن عباس اور بقول بعض مفسرین ہدایت ہے (بحر) اس آیت میں توحید کا روایتی اور نقلی ثبوت پیش کرنیکے بعد اگلی آیتوں میں اسی عقیدہ توحید کو عقلی طور سے حق تعالیٰ کی نعمتیں پیش نظر کر کے ثابت کیا جاتا ہے۔
اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - سبح - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ (آیت) ” اقترب للناس حسابھم “۔ (الخ) اور ”۔ اقتربت الساعۃ “۔ نازل ہوئی تو کچھ زمانہ تک جتنا کہ خدا کو منظور تھا یہ کفار رکے رہے اور کچھ نہیں بولے، اس کے بعد انہوں نے کہا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ عذاب کب آئے گا جس کا آپ نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔- ان کی اس بات پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آپہنچا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے یہ سمجھ کر ابھی عذاب نازل ہو رہا ہے، گھبرا کر کھڑے ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، عذاب کے اترنے کی جلدی مت کرو، تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اللہ تعالیٰ کی ذات ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بلند ہے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی شریک۔- شان نزول : (آیت) ” اتی امر اللہ “۔ (الخ)- ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے یہ جس وقت آیت کا یہ حصہ اترا (آیت) ” اتی امر اللہ “۔ (الخ) نازل ہوا تو صحابہ کرام گھبرا گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلا حصہ (آیت) ” فلا تستعجلوہ “۔ نازل کیا تو سب خاموش ہوگئے۔- عبداللہ بن امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے زوائد الزہد میں اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوبکر بن ابوحفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کا حکم آپہنچا تو سب سن کر کھڑے ہوگئے، پھر اگلا حصہ نازل ہوا یعنی سو تم جلدی نہ کرو
آیت ١ (اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ )- جب ہم نے اپنا رسول بھیج دیا اور اس پر اپنا کلام بھی نازل کرنا شروع کردیا ہے تو گویا فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے۔ اب معاملہ صرف مہلت کے دورانیے کا ہے کہ ہمارے رسول اور ہمارے پیغام کا انکار کرنے والوں کو مشیت الٰہی کے مطابق کس قدر مہلت ملتی ہے۔ بہر حال اب جلدی مچانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا عذاب بس اب آیا ہی چاہتا ہے ‘ اس کے لیے اب بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :1 یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔ اس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات کو صیغہ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا ، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”فیصلہ“ کیا تھا اور کس شکل میں آیا ؟ ہم یہ سمجھتے ہیں ( اللہ اعلم بالصواب ) کہ اس فیصلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا ۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ان کے حجود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم ان کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد یا تو ان پر تباہ کن عذاب آجاتا ہے ، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفار مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے ۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :2 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کو وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو ، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ ان کا مشرکانہ مذہب ہی برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر ہماری شامت نہ آجاتی ۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہرگز وہ نہیں ہے جو تم سمجھ بیٹھے ہو ۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو ۔
1: عربی زبان کے اعتبار سے یہ انتہائی زور دار فقرہ ہے جس میں آئندہ ہونے والے کسی یقینی واقعے کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے زور اور تأثیر کو کسی اور زبان میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کفار سے یہ فرماتے تھے کہ کفر کا نتیجہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگا، اور مسلمان غالب آئیں گے تو وہ مذاق اُڑانے کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ اگر عذاب آنا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے کہئے کہ اُسے ابھی بھیج دے۔ اس کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ عذاب کی یہ دھمکی اور مسلمانوں کی فتح کا وعدہ (معاذ اللہ) محض بناوٹی بات ہے، اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ اِس سورت کا آغاز اُن کے اِس طرزِ عمل کے مقابلے میں یہ فرما کر کیا گیا ہے کہ کافروں پر آنے والے جس عذاب اور مسلمانوں کے غلبے کی جس خبر کو تم ناممکن سمجھ رہے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے، اور اِتنا یقینی ہے کہ گویا آن ہی پہنچا ہے، لہٰذا اُس کے آنے کی جلدی مچا کر اُس کا مذاق نہ اُڑاؤ، کیونکہ وہ تہارے سر پر کھڑا ہے۔ پھر اگلے فقرے میں اس عذاب کے یقینی ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تم لوگ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہو، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نہ صرف اُس سے پاک بلکہ اُس سے بہت بالا و برتر ہے، لہٰذا اُس کے ساتھ شرک کرنا اُس کی توہین ہے، اور خالقِ کائنات کی توہین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ توہین کرنے والے پر عذاب نازل ہو (تفسیر المہائمی 402:1)