Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

وحی کیا ہے؟ روح سے مراد یہاں وحی ہے جیسے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52؀ۙ ) 42- الشورى:52 ) ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے وحی نازل فرمائی حالانکہ تجھے تو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کی ماہیت کیا ہے ؟ ہاں ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا اپنے بندوں میں سے راستہ دکھا دیا ۔ یہاں فرمان ہے کہ ہم جن بندوں کو چاہیں پیغبری عطا فرماتے ہیں ہمیں ہی اس کا پورا علم ہے کہ اس کے لائق کون ؟ ہم ہی فرشتوں میں سے بھی اس اعلیٰ منصب کے فرشتے چھانٹ لیتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی ۔ اللہ اپنی وحی اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا تارتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ہوشیار کر دیں جس دن سب کے سب اللہ کے سا منے ہوں گے کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہو گی ۔ اس دن ملک کس کا ہو گا ؟ صرف اللہ واحد و قہار کا ۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگوں میں وحدانیت رب کا اعلان کر دیں اور پارسائی سے دور مشرکوں کو ڈرائیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ مجھ سے ڈرتے رہا کریں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 رُوْح سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ ) (42 ۔ الشوری :52) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے، اور ایمان کیا 2۔ 2 مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں جن پر وحی ٰ نازل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الأنعام :124) اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے اور وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے (قیامت کے) دن سے لوگوں کو ڈرائے ـ ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] روح کے مختلف معانی :۔ روح کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل تین معنوں میں استعمال ہوا ہے :- ١۔ روح بمعنی وہ لطیف جوہر جو جاندار میں موجود ہے اور جس کی وجہ سے اس جاندار کے اعضاء وجوارح حرکت کرتے ہیں اور جب یہ روح نکل جاتی ہے تو جاندار بےجان ہوجاتا یا مرجاتا ہے جس طرح اس روح کی حقیقت کا علم انسان کو بہت کم دیا گیا ہے اسی طرح روح کے معانی پر احاطہ کرنا بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے۔ (١٧: ٨٥)- ٢۔ روح بمعنی فرشتہ جیسے فرمایا : (فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا 17؀) 19 ۔ مریم :17) (یعنی ہم نے مریم کی طرف اپنی روح یا فرشتہ بھیجا جو ایک تندرست انسان کی شکل بن گیا) روح سے مراد عام فرشتہ بھی ہوسکتا ہے اور جبرئیل (علیہ السلام) بھی۔ مگر جب روح القدس یا روح الامین کا لفظ آئے تو اس سے مراد صرف سیدنا جبرئیل (علیہ السلام) ہوں گے۔- ٣۔ روح بمعنی وہ پیغام جو فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے اور اس سے مراد وحی بھی ہوسکتا ہے اور سارا قرآن بھی۔ روح کے ساتھ جب من الامر یامن امر کے الفاظ آئیں تو اس سے مراد وحی ہی ہوتی ہے جیسا کہ اس مقام پر ہے بالروح من امرہ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52؀ۙ ) 42 ۔ الشوری :52) اس مقام پر روح سے مراد پورا قرآن ہے نیز ایک دوسرے مقام پر وحی یا رسالت کے معنوں میں اس طرح آیا ہے (يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 15 ۝ ۙ ) 40 ۔ غافر :15) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا پیغام نازل کرتا ہے۔- اور اس مقام پر جو وحی کے لیے روح کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح جسمانی زندگی کے لیے روح کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر روح نہ رہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح صالح طرز زندگی یا نظام حیات کے لیے وحی الٰہی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر صالح نظام قائم ہو ہی نہیں سکتا اور اگر وحی الٰہی کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو اس نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور فاسد نظام رائج ہوجاتا ہے۔- [ ٤] الملئکۃ جمع کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد صرف ایک فرشتہ ہے یعنی جبرئیل (علیہ السلام) کیونکہ وہی پیغامبر اور پیغام رسانی کرنے والے فرشتوں کے سردار ہیں اور محاورۃ عرب میں سردار رئیس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی اور بھی نظائر موجود ہیں اور ابن عباس (رض) کا بھی یہی قول ہے۔- اس جملہ میں مشرکین مکہ کے دو اعتراضات کا جواب آگیا ہے ایک تو وہی اعتراض کہ اگر یہ نبی سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آیا اور اس سے ان کی مراد نبی کی تکذیب ہوتی تھی۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ نے کسی کو نبی بنانا ہی تھا تو کیا مکہ اور طائف کے سردار مارے گئے تھے بس یہی آدمی اللہ کو نبوت کے لیے ملا تھا ( سورة زخرف آیت ٣١) اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ مجھے اس معاملہ میں تمہارے مشورہ کی ضرورت نہیں۔ میں خود ہی بہتر سمجھتا ہوں کہ نبوت کا مستحق کون ہے۔ اور اس کے لیے کن صفات کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا میں جسے چاہتا ہوں اس فضل سے نوازتا ہوں تاکہ وہ لوگوں کو متنبہ کریں کہ الٰہ صرف میں ہی ہوں لہذا تمہیں صرف مجھی سے ڈرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ : ملائکہ سے مراد جبریل (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ وحی کے محافظ فرشتے ہیں۔ صرف جبریل (علیہ السلام) بھی مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ کسی بڑی شخصیت کے لیے جمع کا لفظ بھی بول لیا جاتا ہے۔ ” اَلرُّوْحُ “ سے مراد وہ چیز جس سے زندگی حاصل ہوتی ہے، یہاں مراد وحی ہے، کیونکہ حقیقی زندگی اسی سے حاصل ہوتی ہے، دل کی زندگی بھی اور آخرت کی زندگی بھی، جیسا کہ فرمایا : (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ) [ الشوریٰ : ٥٢ ] ” اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی۔ “ یہاں بھی ”“ سے مراد وحی ہے۔ ” اَمْرِهٖ “ یعنی فرشتے اس کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔ دیکھیے سورة مریم (٦٤) ۔- عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ : معلوم ہوا نبوت وہبی چیز ہے جو محض اللہ کی مشیت اور اس کے انتخاب سے عطا ہوتی ہے، فرمایا : (اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ) [ الحج : ٧٥ ] ” اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔ “ اور فرمایا : (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) [ الأنعام : ١٢٤ ] ” اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ “ یہ اپنی ریاضت یا چلہ کشی سے حاصل ہونے والی چیز نہیں، جیسا کہ قادیانی دجال اور بعض گمراہ لوگوں کا دعویٰ ہے۔ - اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ : آیت کے اس ٹکڑے میں فرشتوں کو وحی دے کر اپنے تمام رسولوں کی طرف بھیجنے کا مقصد بیان فرمایا کہ وہ اللہ کی توحید، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے شرک سے بچنا اور اسی سے ڈرتے رہنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ ۝- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- روح - وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) اللہ تعالیٰ جبریل امین (علیہ السلام) اور دوسرے فرشتوں کو نبوت واسلام یعنی اپنا حکم دے کر اپنے بندوں میں سے جس پر چاہیں یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء کرام پر نازل فرماتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کو خبردار کرو اور قرآن حکیم پڑھ کر ان کو سناؤ تاکہ وہ اس بات کے قائل ہوجائیں کہ میرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں، سو وہ میری ہی اطاعت کریں اور مجھ ہی سے ڈرتے رہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ )- بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ سے مراد اللہ کی وحی ہے۔ یعنی حضرت محمد کو اللہ نے اپنی وحی کے لیے چن لیا اور آپ کی طرف حضرت جبرائیل وحی لے کر آئے۔ یہاں پر لفظ ” امر “ کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ سورة الاعراف کی آیت ٥٤ میں فرمایا گیا : (اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط) ” آگاہ ہوجاؤ ‘ اسی کے لیے خلق ہے اور اسی کے لیے امر “۔ یعنی عالم خلق اور عالم امر دو الگ الگ عالم ہیں۔ عالم امر کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں وقت کا عامل بالکل کارفرما نہیں۔ اس عالم میں کسی کام کے کرنے یا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہونے میں وقت درکار نہیں ہوتا۔ بس اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کے ” کُنْ “ فرمانے سے وہ کام ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں فرمایا گیا : (اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ) ” اس کا امر تو یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس یہی ہوتا کہ وہ اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ - اس کے برعکس عالم خلق میں کسی کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ جیسے قرآن میں متعدد بار فرمایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں تخلیق کیے۔ اسی طرح دنیا کا سارا نظام عالم خلق کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی سے کو نپلیں پھوٹتی ہیں ‘ پھر بڑھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔ - یہاں پر روح کے ذکر کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ عالم امر کی صرف تین چیزیں ہی ہمارے علم میں ہیں۔ ملائکہ ‘ روح اور وحی۔ قرآن میں ملائکہ کو بھی روح کہا گیا ہے۔ جیسے حضرت جبرائیل کے لیے روح القدس اور روح الامین کے الفاظ آئے ہیں۔ سورة الشعراء میں فرمایا گیا : (نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ) جبکہ سورة البقرۃ کی آیت ٨٧ میں ارشاد ہوا : (وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ) ۔ اسی طرح قرآن میں وحی کو بھی روح کہا گیا ہے ‘ اور یہ وحی نازل بھی روح پر ہوتی ہے۔ جب محمد رسول اللہ پر وحی نازل ہوتی تو آپ اس کا ادراک طبعی حواس خمسہ سے نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وحی براہ راست آپ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ قلب محمدی روح محمدی کا مسکن تھا : (نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ) ( الشعراء) ۔ چناچہ وحی بھی روح ہے ‘ اس کو لانے والے جبرائیل امین بھی روح ہیں اور اس کا نزول بھی روح محمدی پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جگر مراد آبادی کا یہ شعر ان کی کسی خاص کیفیت کا مظہر معلوم ہوتا ہے - نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :3 یعنی روح نبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے ۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام ، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :4 فیصلہ طلب کرنے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے اس کے پس پشت چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا ، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معا بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے ۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں ، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہوکر یہ شخص نبوت کر رہا ہے ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پر اللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے ، تو یہ کفار کے ان اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا ، مکے اور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا ، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے ، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے ، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :5 اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ روح نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے ۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف ، اس کی سزا کا ڈر ، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر و عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani