عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے ۔ بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث ۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہو گی ۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بیزار ہے ۔ واحد ہے ، لا شریک ہے ، اکیلا ہی خالق کل ہے ۔ اسی لئے اکیلا ہی سزا وار عبادت ہے ۔ انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نا فرمان ہے ۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے ۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آ جاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے ۔ بندہ تھا چاہئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا ۔ اور آیت میں ہے اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا ۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بےنفع اور بےضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔ سورہ یاسین میں فرمایا کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا ۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو ، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں ۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا ۔
3۔ 1 یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے اور وہ ہے جزا و سزا، جیسا کہ ابھی تفصیل گزری ہے۔
[٥] کائنات میں ہم آہنگی توحید کا ثبوت :۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیشمار مقامات پر شرک کی تردید میں زمین اور آسمانوں کی پیدائش کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں ہم آہنگی ہے۔ کائنات کا ہر کل پرزہ دوسرے کی تائید و توثیق کر رہا ہے۔ پھر اس کائنات کے نظام میں بیشمار فوائد، حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اور سب نتائج تعمیری قسم کے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر اس کائنات کی تخلیق میں کوئی دوسرا بھی شریک ہوتا تو ایسا نظام وجود میں آہی نہ سکتا تھا اور اگر بالفرض محال آ بھی جاتا تو فوراً درہم برہم ہوجاتا۔ گویا کائنات کی ایک ایک چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اس خالق کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ ۔۔ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قدرت کے بہت سے دلائل نہایت عمدہ اور انوکھے انداز سے شروع فرمائے ہیں۔ فرمایا اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ خالق ہے اور زمین و آسمان کی ہر ہستی اور ہر چیز مخلوق ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، پھر خالق و مخلوق یکساں کیسے ہوسکتے ہیں ؟ - بِالْحَقِّ : باطل کے مقابلے میں حق کا لفظ آتا ہے، یہاں بمعنی حکمت ہے، یعنی زمین و آسمان کی پیدائش بیشمار حکمتوں پر مبنی ہے، یہ کوئی کھیل یا فضول اور بےکار کام نہیں۔ دیکھیے سورة ابراہیم ( ١٩، ٢٠) ، سورة ص ( ٢٧) اور سورة دخان (٣٨، ٣٩) سب سے پہلے اپنی وحدانیت کی دلیل کے لیے زمین و آسمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ یہ دوسری اکثر مخلوقات سے عظیم اور ان پر حاوی ہیں، چناچہ فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے۔ “
لغات کی تشریح :- خصیم خصومت سے مشتق ہے بمعنی جھگڑا لو انعام، نعم (بفتح نون) کی جمع ہے چوپایوں میں سے اونٹ، بکری گائے کو کہا جاتا ہے (مفردات راغب)- دف گرمی اور گرمائی حاصل کرنے کی چیز مراد اون ہے جس کے گرم کپڑے بنائے جاتے ہیں تریحون رواح سے اور تسرحون سراح سے مشتق ہے چوپائے جانوروں کے صبح کے وقت چراگاہ کی طرف جانے کو سراح اور شام کو گھر میں واپس آنے کو رواح کہا جاتا ہے شق الانفس جان کی محنت ومشقت۔- خلاصہ تفسیر :- (اللہ تعالیٰ نے) آسمانوں کو اور زمین کو حکمت سے بنایا وہ ان کے شرک سے پاک ہے (اور) انسان کو نطفہ سے بنایا پھر وہ اچانک کھلم کھلا (خدا ہی کی ذات وصفات میں) جھگڑنے لگا (یعنی بعض ایسے بھی ہوئے مطلب یہ ہے کہ ہماری یہ نعمتیں اور انسان کی طرف سے ناشکری) اور اسی نے چوپایوں کو بنایا ان میں تمہارے جاڑے کا بھی سامان ہے (جانوروں کی بال اور کھال سے انسان کے پوستین اور کپڑے بنتے ہیں) اور بھی بہت سے فائدے ہیں (دودھ سواری باربرداری وغیرہ) اور ان میں (جو کھانے کے قابل ہیں ان کو) کھاتے بھی ہو اور ان کی وجہ سے تمہاری رونق بھی ہے جب کہ شام کے وقت (جنگل سے گھر) لاتے ہو اور جب کہ صبح کے وقت (گھر سے جنگل کو) چھوڑ دیتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ بھی (لاد کر) ایسے شہر کو لے جاتے ہیں جہاں تم بدون جان کو محنت میں ڈالے ہوئے نہیں پہنچ سکتے واقعی تمہارا رب بڑی شفقت و رحمت والا ہے (کہ تمہارے آرام کے لئے کیا کیا سامان پیدا کئے) اور گھوڑے اور خچر اور گدھے بھی پیدا کئے تاکہ ان پر سوار ہو اور نیز زینت کے لئے بھی اور وہ ایسی ایسی چیزیں (تمہاری سواری وغیرہ کے لئے) بناتا ہے جن کی تم کو خبر بھی نہیں۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔
(٣) اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اللہ کے لیے یا یہ کہ زوال وفنا کے لیے بنایا اس کی ذات ان بتوں وغیرہ کے شرک سے پاک ہے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :6 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں ، اسی کی شہادت زمین وآسمان کا پورا کارخانہ تخلیق دے رہا ہے ۔ یہ کارخانہ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے ، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے ۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو ، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی ، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی ، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہین منت ہے ۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد آثار کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں ۔