Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ازلی بد نصیب لوگ مشرکوں کی عقلی ، بےثباتی اور بےیقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو؟ یہ تو ازلی بد نصیب ہیں ، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا ، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے ، حکم دے ، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے ۔ جیسے آیت ( مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٠٦؁ ) 2- البقرة:106 ) میں فرمایا ہے ۔ پاک روح یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں ، اب اترا ، مانا ، پھر اترا ، پھر مانا ، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں ، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں ، مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو جائے ، اللہ اور رسول اللہ کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 یعنی ایک حکم منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم نازل کرتے ہیں، جس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور اس کے مطابق وہ احکام میں رد وبدل فرماتا ہے، تو کافر کہتے ہیں کہ یہ کلام اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اس طرح نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اکثر لوگ بےعلم ہیں، اس لئے یہ منسوخی کی حکمتیں اور مصلحتیں کیا جانیں۔ مزید وضاحت کیلیے ملاحظہ ہو سورة بقرہ آیت 106 کا حاشیہ

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] قیامت کب ؟ ایک سوال کے مختلف جوابات :۔ اس سے مراد کافروں کے کسی سوال یا اعتراض کے مختلف مواقع پر مختلف جواب بھی ہوسکتے ہیں مثلاً کافر اکثر یہ پوچھتے رہتے کہ جس قیامت کی تم بات کرتے رہتے ہو وہ آئے گی کب ؟ اس سوال کا ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ وہ اس طرح دفعتاً آئے گی کہ تمہیں خبر تک نہ ہوسکے گی۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ جب وہ آئے گی تو اس وقت تمہارا ایمان لانا بےسود ہوگا اور تیسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ جب وہ آجائے گی تو اس میں لمحہ بھر کے لیے بھی تقدیم و تاخیر نہ ہوسکے گی اور چوتھے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ انھیں کہہ دیجئے کہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اور میں تو فقط اس کا رسول ہوں۔- ناسخ اور منسوخ احکام کی کیفیت :۔ اور یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ قرآن میں اقوام و انبیائے سابقہ کے حالات مختلف مقامات پر کہیں اجمالاً بیان ہوئے ہیں کہیں تفصیلاً کہیں ایک پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے کہیں کسی دوسرے پہلو کو۔ یہی صورت احکام کی بھی ہے جن میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ تدریج لوگوں کے عقل و فہم یا ان کی ایک وقت عدم استعداد اور دوسرے وقت استعداد کی بنا پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ہر طرح کے حالات سے باخبر ہے لہذا اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ حالات کے تقاضوں کے مطابق احکام نازل کرے۔ اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حکیم ایک مریض کے لیے پہلے کوئی اور دوا تجویز کرتا ہے پھر مریض کی کیفیت کے مطابق دوا تبدیل کردیتا ہے۔- [١٠٥] تبدیلی احکام کی بنا پر آپ پر قرآن گھڑنے کا الزام :۔ ایسی تبدیلی کی صورت میں کافر یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کلام اللہ کا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تو پہلے ہی ہر بات سے باخبر ہے۔ اس کے احکام میں تبدیلی یا ایک سوال کے مختلف جوابات کیوں ہوتے ہیں۔ ہو نہ ہو یہ کلام اس نبی نے خود گھڑ لیا ہے۔ کسی وقت کوئی جواب دے دیتا ہے اور کسی وقت کوئی دوسرا۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کافروں کا یہ جواب محض جہالت پر مبنی ہے۔ تبدیلی احکام کی وجہ یہ نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ پہلے نہیں جانتا تھا بلکہ اس کی اصل وجہ لوگوں کی استعداد اور عدم استعداد اور حالات کے تقاضے ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ : یعنی پہلی آیت کا حکم منسوخ کرکے نیا حکم نازل فرماتے ہیں۔ نسخ پر بحث کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (١٠٦) اب یہاں سے کفار کے شبہات کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (شوکانی)- بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی ان کے اکثر لوگ نسخ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مفتری اس لیے کہتے ہیں کہ انھیں پہلی شریعتوں کا علم نہیں، اگر ہوتا تو سمجھ لیتے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے قاعدہ رہا ہے کہ وہ ایک حکم اتارتا ہے اور پھر جب چاہتا ہے اسے منسوخ کرکے دوسرا حکم دے دیتا ہے۔ ” اَكْثَرُهُمْ “ اس لیے فرمایا کہ کچھ لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود ضد اور عناد کی وجہ سے آپ کو مفتری کہتے ہیں۔ - اس آیت کے دو مفہوم ہیں، ایک وہ جو اوپر گزرا، وہاں ” اٰيَةٍ “ سے مراد شرعی آیت اور حکم ہے، دوسرا معنی نشانی اور معجزہ ہے۔ اس وقت ” اٰيَةٍ “ سے مراد آیت کونیہ ہوگی، مثلاً ابراہیم (علیہ السلام) کا آگ میں نہ جلنا، عصائے موسیٰ ، ید بیضا، اللہ کے حکم سے مردہ کو زندہ کرنا وغیرہ۔ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ تعالیٰ نے آیات کونیہ کا نظام بھی بدل دیا اور بطور معجزہ بھی قرآن ہی نازل فرمایا اور صرف کسی ایک سورت کے مقابلے کا چیلنج دیا، جس کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا، نہ دے سکے گا۔ باقی انبیاء کی آیات یعنی معجزوں کے بدلے یہ آیت یعنی معجزہ ایسا نازل ہوا جو آپ کے بعد قیامت تک موجود ہے۔ جب کچھ جواب نہ آیا تو آپ کو مفتری کہہ دیا، فرمایا نبی مفتری نہیں بلکہ یہ بےچارے بےعلم ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- ربط آیات اس سے پہلی آیت میں تلاوت قرآن کے وقت اعوذ باللہ پڑھنے کی ہدایت تھی جس میں اشارہ ہے کہ شیطان تلاوت کے وقت انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے مذکورہ آیات میں اسی طرح کے وساوس شیطانی کا جواب ہے ،- نبوت پر کفار کے شبہات کا جواب مع تہدید :- اور جب ہم کسی آیت کو بجائے دوسری آیت کے بدلتے ہیں (یعنی ایک آیت کو لفظا یا معنی منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم بھیجدیتے ہیں) اور حالانکہ اللہ تعالیٰ جو حکم (پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ) بھیجتا ہے (اس کی مصلحت و حکمت کو) وہی خوب جانتا ہے (کہ جن کو یہ حکم دیا گیا ہے ان کے حالات کے اعتبار سے ایک وقت میں مصلحت کچھ تھی پھر حالت بدل جانے سے مصلحت اور حکمت دوسری ہوگی) تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) آپ (خدا پر) افتراء کرنے والے ہیں (کہ اپنے کلام کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ورنہ اللہ کا حکم ہوتا تو اس کے بدلنے کی کیا ضرورت تھی کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہ تھا اور یہ لوگ اس پر غور نہیں کرتے کہ بعض اوقات سب حالات کا علم ہونے کے باوجود پہلی حالت پیش آنے پر پہلا حکم دیا جاتا ہے اور دوسری حالت پیش آنے کا اگرچہ اس وقت بھی علم ہے مگر بتقاضائے مصلحت اس دوسری حالت کا حکم اس وقت بیان نہیں کیا جاتا بلکہ جب وہ حالت پیش آجاتی ہے اس وقت بیان کیا جاتا ہے جیسے طبیب ڈاکٹر ایک دوا تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے استعمال سے حالت بدلے گی اور پھر دوا دوسری دی جائے گی مگر مریض کو ابتدا میں سب تفصیل نہیں بتلاتا یہی حقیقت نسخ احکام کی ہے جو قرآن وسنت میں ہوتا ہے جو حقیقت سے واقف نہیں وہ باغوا شیطانی نسخ کا انکار کرنے لگتے ہیں اسی لئے اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مفتری نہیں) بلکہ انہی میں اکثر لوگ جاہل ہیں (کہ احکام میں نسخ کو بلا کسی دلیل کے کلام الہی ہونے کے خلاف سمجھتے ہیں) آپ (ان کے جواب میں) فرما دیجئے (کہ یہ کلام میرا بنایا ہوا نہیں بلکہ اس کو) روح القدس (یعنی جبرئیل علیہ السلام) آپ کے رب کی طرف سے حکمت کے موافق لائے ہیں (اس لئے یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں احکام کی تبدیلی بمقتضائے حکمت و مصلحت ہے اور یہ کلام اس لئے بھیجا گیا ہے) تاکہ ایمان والوں کو (ایمان پر) ثابت قدم رکھے اور ان مسلمانوں کے لئے ہدایت اور خوشخبری (کا ذریعہ) ہوجائے ( اس کے بعد کفار کے ایک اور لغو شبہ کا جواب ہے) اور ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ (ایک دوسری غلط بات) یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو تو آدمی سکھلاتا ہے (اس سے مراد ایک عجمی روم کا باشندہ لوہار ہے جس کا نام بلعام یا مقیس تھا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں جی لگا کر سنتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی اس کے پاس جا بیٹھتے اور وہ کچھ انجیل وغیرہ کو بھی جانتا تھا اس پر کافروں نے یہ بات چلتی کی کہ یہی شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کا کلام سکھاتا ہے، کذا فی الدرالمنثور، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ قرآن مجید تو مجموعہ الفاظ ومعانی کا نام ہے تم لوگ اگر قرآن کریم کے معانی اور معارف کو نہیں پہچان سکتے تو کم از کم عربی زبان کی معیاری فصاحت و بلاغت سے تو ناواقف نہیں ہو تو اتنا تو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ اگر بالفرض قرآن کے معانی اس شخص نے سکھلا دیئے ہوں تو کلام کے الفاظ اور ان کی ایسی فصاحت و بلاغت جس کا مقابلہ کرنے سے پورا عرب عاجر ہوگیا یہ کہاں سے آگئی کیونکہ) جس شخص کی طرف اس کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن صاف عربی ہے (کوئی بیچارہ ایسی عبارت کیسے بنا سکتا ہے اور اگر کہا جائے کہ عبارت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنائی ہوگی تو اس کا واضح جواب اس تحدی (چلینج) سے پوری طرح ہوچکا ہے جو سورة بقرہ میں آچکا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باذن خداوندی اپنی نبوت اور قرآن کی حقانیت کا معیار اسی کو قرار دے دیا تھا کہ اگر تمہارے کہنے کے مطابق یہ انسان کا کلام ہے تو تم بھی انسان ہو اور بڑی فصاحت و بلاغت کے مدعی ہو تو تم اس جیسا کلام زیادہ نہیں تو ایک آیت ہی کی برابر لکھ لاؤ مگر سارا عرب باوجودیکہ آپ کے مقابلہ میں اپنا سب کچھ جان ومال قربان کرنے کو تیار تھا مگر اس چیلنج کو قبول کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی اس کے بعد منکرین نبوت اور قرآن پر ایسے اعتراضات کرنے والوں پر وعید وتہدید ہے کہ) جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ان کو اللہ تعالیٰ کبھی پر نہ لائیں گے اور ان کے لئے درد ناک سزا ہوگی (اور یہ لوگ جو نعوذ باللہ آپ کو مفتری کہتے ہیں) جھوٹ افتراء کرنے والے تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ ۙ وَّاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٠١؁- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠١) اور جب ہم ایک منسوخ کرے اس کے بدلہ بذریعہ جبریل دوسرا حکم ناسخ بھیجتے ہیں، حالانکہ بندوں کو کس چیز کا حکم دینا چاہیے اس کی مصلحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں تو یہ کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی جانب سے ایسا کہہ رہے ہیں۔- بلکہ ان ہی میں سے اکثر لوگ اس بات سے بیخبر ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان ہی کاموں کا حکم دیتے ہیں جن میں ان کے لیے مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ )- قبل ازیں یہ مضمون سورة البقرۃ میں بیان ہوچکا ہے : ( مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا) (آیت ١٠٦) ۔ چناچہ سورة البقرۃ کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت اس مضمون کی وضاحت بھی ہوچکی ہے۔- (وَّاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ )- قرآن کا نزول اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے عین مطابق ہور ہا ہے۔ اگر کوئی مخصوص حکم کسی ایک دور کے لیے تھا اور پھر بدلے ہوئے حالات میں اس حکم میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو یہ سب کچھ اللہ کے علم کے مطابق ہے اور کسی خاص ضرورت اور حکمت کے تحت ہی کسی حکم میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ مگر ایسی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے :- (قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ )- کہ پہلے یوں کہا گیا تھا اب اسے بدل کر یوں کہہ رہے ہیں۔ اگر یہ اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں اس طرح کی تبدیلی کیسے ممکن تھی ؟- (بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ )- حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت علم سے عاری ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :102 ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو ، تین تین حکم بھیجے گئے ہیں ۔ مثلا شراب کا معاملہ ، یا زنا کی سزا کا معاملہ ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورہ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے ، اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی ۔ اس لیے ہم یہاں ” ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے ۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے ۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل ۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل ۔ یہی چیز تھی جسے کفارِ مکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، معاذ اللہ ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علم الہی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی ۔ اللہ کوئی انسان کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے ، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے ، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آرہی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

44: اﷲ تعالیٰ مختلف حالات کے لحاظ سے اپنے اَحکام میں کبھی کبھی تبدیلی فرماتے تھے، جیسا کہ قبلے کے اَحکام کے متعلق سورۂ بقرہ میں تفصیل گذرچکی ہے، اس پر کفار اِعتراض کرتے تھے کہ یہ احکام کیوں بدلے جارہے ہیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں، بلکہ (معاذ اللہ) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی طرف سے یہ تبدیلیاں کررہے ہیں۔ اس آیت میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس وقت کونسا حکم نازل کیا جائے۔