ایمان کے بعد کفر پسند لوگ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان کے بعد کفر کریں دیکھ کر اندھے ہو جائیں پھر کفر یہ ان کا سینہ کھل جائے ، اس پر اطمینان کرلیں ۔ یہ اللہ کی غضب میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایمان کا علم حاصل کر کے پھر اس سے پھر گئے اور انہیں آخرت میں بڑا سخت عذاب ہو گا ۔ کیونکہ انہوں نے آخرت بگاڑ کر دنیا کی محبت کی اور صرف دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام پر مرتد ہونے کو ترجیح دی چونکہ ان کے دل ہدایت حق سے خالی تھے ، اللہ کی طرف سے ثابت قدمی انہیں نہ ملی ۔ دلوں پر مہریں لگ گئیں ، نفع کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کان اور آنکھیں بھی بیکار ہو گئیں نہ حق سن سکیں نہ دیکھ سکیں ۔ پس کسی چیز نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور اپنے انجام سے غافل ہو گئے ۔ یقینا ایسے لوگ قیامت کے دن اپنا اور اپنے ہم خیال لوگوں کا نقصان کرنے والے ہیں ۔ پہلی آیت کے درمیان جن لوگوں کا استثناء کیا ہے یعنی وہ جن پر جبر کیا جائے اور ان کے دل ایمان پر جمعے ہوئے ہوں ، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہ سبب مار پیٹ اور ایذاؤں کے مجبور ہو کر زبان سے مشرکوں کی موافقت کریں لیکن ان کا دل وہ نہ کہتا ہو بلکہ دل میں اللہ پر اور اس کے رسول پر کامل اطمینان کے ساتھ پورا ایمان ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ کو مشرکین نے عذاب کرنا شروع کیا جب تک کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر نہ کریں ۔ پس بادل ناخواستہ مجبوراً اور کرھاً آپ نے ان کی موافقت کی ، پھر اللہ کے نبی کے پاس آ کر عذر بیان کرنے لگے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ شعبی ، قتاوہ اور ابو مالک بھی یہی کہتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ مشرکوں نے آپ کو پکڑا اور عذاب دینے شروع کئے ، یہاں تک کہ آپ ان کے ارادوں کے قریب ہو گئے ۔ پھر حضور علیہ السلام کے پاس آ کر اس کی شکایت کرنے لگے تو آپ نے پوچھا تم اپنے دل کا حال کیسا پاتے ہو؟ جواب دیا کہ وہ تو ایمان پر مطمئن ہے ، جما ہوا ہے ۔ آپ نے فرمایا اگر وہ پھر لوٹیں تو تم بھی لوٹنا ۔ بیہقی میں اسے بھی زیادہ تفصیل سے ہے اس میں ہے کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے کیا پھر آپ کے پاس آ کر اپنا یہ دکھ بیان کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے اذیت دینا ختم نہیں کیا جب تک کہ میں نے آپ کو برا بھلا نہ کہہ لیا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے نہ کیا ۔ آپ نے فرمایا تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟ جواب دیا کہ ایمان پر مطمئن ۔ فرمایا اگر وہ پھر کریں تو تم بھی پھر کر لینا ۔ اسی پر یہ آیت اتری ۔ پس علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جس پر جبر و کراہ کیا جائے ، اسے جائز ہے کہ اپنی جان بچانے کے لئے ان کی موافقت کر لے اور یہ بھی جائز ہے کہ ایسے موقعہ پر بھی ان کی نہ مانے جیسے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کر کے دکھایا کہ مشرکوں کی ایک نہ مانی حالانکہ وہ انہیں بدترین تکلیفیں دیتے تھے یہاں تک کہ سخت گرمیوں میں پوری تیز دھوپ میں آپ کو لٹا کر آپ کے سینے پر بھاری وزنی پتھر رکھ دیا کہ اب بھی شرک کرو تو نجات پاؤ لیکن آپ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید احد احد کے لفظ پتھر رکھ دیا کہ اب بھی رشک کرو تو نجات پاؤ لیکن آپ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید احد احد کے لفظ سے بیان فرماتے رہے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ واللہ اگر اس سے بھی زیادہ تمہیں چبھنے والا کوئی لفظ میرے علم میں ہوتا تو میں وہی کہتا اللہ ان سے راضی رہے اور انہیں بھی ہمیشہ راضی رکھے ۔ اسی طرح حضرت خیب بن زیاد انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ جب ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا کہ کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں ۔ پھر اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا میرے رسول اللہ ہونے کی بھی گواہی دیتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا میں نہیں سنتا ۔ اس پر اس جھوٹے مدعی نبوت نے ان کے جسم کے ایک عضو کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا پھر یہی سوال جواب ہوا ۔ دوسرا عضو جسم کٹ گیا یونہی ہوتا رہا لیکن آپ آخر دم تک اسی پر قائم رہے ، اللہ آپ سے خوش ہو اور آپ کو بھی خوش رکھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جو چند لوگ مرتد ہو گئے تھے ، انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگ میں جلوا دیا ، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں تو انہیں آگ میں نہ جلاتا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذاب سے تم عذاب نہ کرو ۔ ہاں بیشک میں انہیں قتل کرا دیتا ۔ اس لئے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کر دو ۔ جب یہ خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا ابن عباس کی ماں پر افسوس ۔ اسے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی وارد کیا ہے ۔ مسند میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے ۔ دیکھا کہ ایک شخص ان کے پاس ہے ۔ پوچھا یہ کیا ؟ جواب ملا کہ یہ ایک یہودی تھا ، پھر مسلمان ہو گیا اب پھر یہودی ہو گیا ہے ۔ ہم تقریباً دو ماہ سے اسے اسلام پر لانے کی کوشش میں ہیں ، تو آپ نے فرمایا واللہ میں بیٹھوں گا بھی نہیں جب تک کہ تم اس کی گردن نہ اڑا دو ۔ یہی فیصلہ ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو اپنے دین سے لوٹ جائے اسے قتل کر دو یا فرمایا جو اپنے دین کو بدل دے ۔ یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی ہے لیکن الفاظ اور ہیں ۔ پس افضل و اولیٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم اور ثابت قدم رہے گو اسے قتل بھی کر دیا جائے ۔ چنانچہ حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ عبداللہ بن حذافہ سہمی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترجمہ میں لائے ہیں کہ آپ کو رومی کفار نے قید کر لیا اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا ، اس نے آپ سے کہا کہ تم نصرانی بن جاؤ میں تمہیں اپنے راج پاٹ میں شریک کر لیتا ہوں اور اپنی شہزادی تمہاری نکاح میں دیتا ہوں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی تمام بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی دین محمد سے پھر جاؤں تہ یہ بھی ناممکن ہے ۔ بادشاہ نے کہا پھر میں تجھے قتل کر دوں گا ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا گیا اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کیا بار بار کہا جاتا تھا کہ اب بھی نصراینت قبول کر لو اور آپ پورے استقلال اور صبر سے فرماتے جاتے تھے کہ ہرگز نہیں آخر بادشاہ نے کہا اسے سولی سے اتار لو ، پھر حکم دیا کہ پیتل کی دیگ یا پیتل کی کی بنی ہوئی گائے خوب تپا کر آگ بنا کر لائی جائے ۔ چنانچہ وہ پیش ہوئی بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو ۔ اسی وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا وہ مسکین اسی وقت چر مر ہو کر رہ گئے ۔ گوشت پوست جل گیا ہڈیاں چمکنے لگیں ، رضی اللہ عنہ ۔ پھر بادشاہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی ہماری مان لو اور ہمارا مذہب قبول کر لو ، ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا ۔ آپ نے پھر بھی اپنے ایمانی جوش سے کام لیکر فرمایا کہ ناممکن کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں ۔ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو ، جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لئے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں ، اسی وقت اس نے حکم دیا کہ رک جاؤ انہیں اپنے پاس بلا لیا ، اس لئے کہ اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اب اس کے خیالات پلٹ گئے ہیں میری مان لے گا اور میرا مذہب قبول کر کے میرا داماد بن کر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا لیکن بادشاہ کی یہ تمنا اور یہ خیال محض بےسود نکلا ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں صرف اس وجہ سے رویا تھا کہ آج ایک ہی جان ہے جسے راہ حق میں اس عذاب کے ساتھ میں قربان کر رہا ہوں ، کاش کہ میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی کہ آج میں سب جانیں راہ اللہ اسی طرح ایک ایک کر کے فدا کرتا ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو قید خانہ میں رکھا کھانا پینا بند کر دیا ، کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ تک نہ فرمائی ۔ بادشاہ نے بلوا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اس حالت میں یہ میرے لئے حلال تو ہو گیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقعہ دینا چاہتا ہی نہیں ہوں ۔ اب بادشاہ نے کہا اچھا تو میرے سر کا بوسہ لے تو میں تجھے اور تیرے ساتھ کے اور تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دیتا ہوں آپ نے اسے قبول فرما لیا اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو چھوڑ دیا جب حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہاں سے آزاد ہو کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا ماتھا چومے اور میں ابتدا کرتا ہوں یہ فرما کر پہلے آپ نے ان کے سر پر بوسہ دیا ۔
106۔ 1 اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کے لئے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کرلے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا، نہ اس کی بیوی اس سے جدا ہوگی اور نہ اس پر دیگر احکام کفر لاگو ہونگیں۔ قالہ الْقُرْطُبِیُّ (فتح القدیر) 106۔ 2 یہ مرتد ہونے کی سزا ہے کہ وہ غضب الٰہی اور عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے اور اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :217) اور آیت (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ) 2 ۔ البقرۃ :256) کا حاشیہ) ۔
[١١١] اضطراری حالت میں کلمہ کفر کہنے کی رخصت :۔ اگر کوئی مسلمان مصیبتوں اور سختیوں سے گھبرا کر یا جان کے خطرہ کے وقت منہ سے کوئی کلمہ کفر کہہ دے بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر بدستور قائم ہو تو اس بات کی رخصت ہے ورنہ اصل حکم یا عزیمت یہی ہے کہ اس وقت بھی اس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے اور وہ اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے۔ چناچہ دور مکی میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے جو مظالم و شدائد ڈھائے جاتے رہے ان میں اکثر صحابہ کرام (رض) عزیمت پر ہی عمل پیرا رہے۔ وہ مصائب جھیلتے رہے مگر ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ حتیٰ کہ بعض صحابہ نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ لے دے کے ایک مثال سیدنا عمار بن یاسر (رض) کی ہمیں ملتی ہے۔ عمار (رض) خود ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سمیہ سب ابو جہل سردار قریش مکہ کے غلام تھے۔ سیدنا عمار (رض) کے سامنے ان کے والد کو شہید کیا گیا اور ابو جہل لعین نے ان کی والدہ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر انھیں شہید کردیا۔ ان حالات میں آپ نے مجبور ہو کر وہ سب کچھ کہہ دیا جو کافر آپ سے کہلوانا چاہتے تھے پھر اسی وقت آپ حضور کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ میں نے ایسے اور ایسے حالات میں آپ کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر کیا آپ نے فرمایا اپنے دل کی کیفیت بتاؤ سیدنا عمار (رض) کہنے لگے میرا دل تو پوری طرح ایمان پر مطمئن ہے آپ نے فرمایا اچھا اگر پھر تم سے وہ ایسا ہی سلوک کریں تو تم پھر اس رخصت سے فائدہ اٹھا لینا اسی سلسلہ میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (بخاری۔ کتاب الاکراہ۔ باب قول اللہ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان)- [١١٢] یعنی جو لوگ اسلام لانے کے بعد پیش آمدہ مصائب سے گھبرا کر اپنی سابقہ کفر کی آرام طلب زندگی کو ترجیح دینے لگیں اور کسی قسم کا دنیوی نقصان بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوں اور انھیں وجوہ کی بنا پر برضاء ورغبت پھر کفر کی راہ اختیار کرلیں۔ تو ایسے لوگ فی الواقع عذاب عظیم کے مستحق ہیں۔
مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ ۔۔ : طبری نے معتبر سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( مَنْ کَفَرَ مِنْ بَعْدِ إِیْمَانِہِ فَعَلَیْہِ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُ عَذَابٌ عَظِیْمٌ فَأَمَّا مَنْ أُکْرِہَ فَتَکَلَّمَ بِہِ لِسَانُہُ وَ خَالَفَہُ قَلْبُہُ بالإِْیْمَانِ لِیَنْجُوَ بِذٰلِکَ مِنْ عَدُوِّہِ فَلَا حَرَجَ عَلَیْہِ لِأَنَّ اللّٰہَ تَأْخُذُ الْعِبَادَ بِمَا عُقِدَتْ عَلَیْہِ قُلُوْبُھُمْ ) [ طبری : ١٧؍٣٠٥ ] ” جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے اس پر اللہ تعالیٰ کا بھاری غضب ہے اور اس کے لیے عذاب عظیم ہے، لیکن جسے مجبور کردیا جائے اور وہ زبان سے کوئی بات کہہ دے، جب کہ اس کا دل ایمان کی وجہ سے اس کے خلاف ہو، تاکہ اس کے ساتھ دشمن سے جان بچا لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ بندوں کو صرف اس چیز پر پکڑتا ہے جو ان کے دلوں کا پکا عقیدہ ہو۔ “- 3 عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ( کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْھَرَ إِسْلَامَہُ سَبْعَۃٌ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُوْ بَکْرٍ ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّہُ سُمَیَّۃُ ، وَصُھَیْبٌ، وَبِلاَلٌ، وَالْمِقْدَادُ ، فَأَمَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَمَنَعَہُ اللّٰہُ بِعَمِّہِ أَبِيْ طَالِبٍ ، وَأَمَّا أَبُوْ بَکْرٍ فَمَنَعَہُ اللّٰہُ بِقَوْمِہِ ، وَأَمَّا سَاءِرُھُمْ ، فَأَخَذَھُمُ الْمُشْرِکُوْنَ وَأَلْبَسُوْھُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیْدِ وَ صَھَرُوْھُمْ فِي الشَّمْسِ ، فَمَا مِنْھُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وَاتَاھُمْ عَلٰی مَا أَرَادُوْا، إِلَّا بلاَلاً ، فَإِنَّہُ ھَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ فِي اللّٰہِ ، وَھَانَ عَلٰی قَوْمِہِ ، فَأَخَذُوْہُ ، فَأَعْطَوْہُ الْوِلْدَانَ ، فَجَعَلُوْا یَطُوْفُوْنَ بِہِ فِيْ شِعَابِ مَکَّۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ : أَحَدٌ، أَحَدٌ )[ ابن ماجہ، السنۃ، باب فضل سلمان و أبی ذر والمقداد۔ : ١٥٠، قال البوصیري رجالہ ثقات و قال الحاکم صحیح الأسناد و أقرہ الذھبی، وقال الألباني حسن ] ” سب سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات آدمی تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد (رض) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور ابوبکر (رض) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ باقی سب کو مشرکین نے پکڑا اور انھیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں جھلسنے کے لیے پھینک دیا، چناچہ وہ جتنے تھے سب نے اس کے مطابق کہہ دیا جو کفار چاہتے تھے سوائے بلال (رض) کے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کے نزدیک اس کی جان بےقدر و قیمت ٹھہری (اور اس نے اس کی کوئی پروا نہ کی) اور وہ ان لوگوں کی نظر میں ایسا بےقدر و قیمت ٹھہرا کہ انھوں نے اسے پکڑ کر بچوں کو دے دیا، وہ اسے لے کر مکہ کی گھاٹیوں میں گھومتے پھرتے اور وہ احد احد (اللہ ایک ہے، ایک ہے) کہتا رہتا۔ “- 3 اوپر کفار کے شبہات ذکر کرکے اس شخص کا حکم بیان فرمایا جو ایسے شبہات سے متاثر ہو کر ایمان سے پھر جائے اور شرح صدر کے ساتھ کفر قبول کرلے کہ اس پر رب تعالیٰ کا بھاری غضب ہے اور اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ ” الا من اکرہ “ کے ساتھ اس شخص کے بارے میں فرمایا جس پر کوئی ظالم جبر کرے اور وہ اپنی جان بچانے کی خاطر کلمۂ کفر زبان سے کہہ دے، یہ رخصت ہے، لیکن اگر کوئی شخص مرنا قبول کرلے اور منہ سے بھی کلمۂ کفر یا خلاف اسلام کوئی بات نہ نکالے تو یہ عزیمت ہے اور ایسا شخص بہت بڑا شہید ہوگا، جیسا کہ اللہ کے پیغمبروں مثلاً ابراہیم اور مسیح (علیہ السلام) نے موت کے خوف سے کلمۂ کفر نہیں کہا اور شہادت قبول کی، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا۔ اسی طرح اصحاب الاخدود کا اور سورة یس میں مذکور شہید ہونے والے شخص کا واقعہ ہے اور اسلام میں تو اس کی بیشمار مثالیں ہیں، جیسا کہ بلال (رض) اور دوسرے اصحاب و تابعین۔- 3 بعض لوگوں نے جو ابوبکر، عمر، عثمان اور صحابہ کرام (رض) سے بغض رکھتے ہیں، جب دیکھا کہ علی، حسن، حسین اور دوسرے بنی ہاشم (رض) نے تینوں خلفاء کی بیعت کرلی، جو ان کے خلیفہ برحق ہونے کی دلیل ہے تو ان دشمنان صحابہ نے یہ بات بنائی کہ انھوں نے یہ کام مجبوری کی بنا پر تقیہ سے کیا تھا، حالانکہ تقیہ تو ایک رخصت ہے جو کمزور لوگوں کا کام ہے، شیر خدا بھی تقیہ کرے تو حق کا اعلان اور عزیمت پر عمل کون کرے گا۔ پھر تقیہ کا بہانہ بنانے والوں کی کتاب ” الکافی “ میں لکھا ہے کہ ان کے امام اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور ان کی مرضی ہوتی ہے تو مرتے ہیں۔ تو ان کے قول کے مطابق پہلے امام علی (رض) کو جب اپنی موت کا علم تھا کہ عبد الرحمن بن ملجم کے ہاتھوں ہوگی تو انھیں کون سی مجبوری تھی کہ خلفائے ثلاثہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے، یا عمر بن خطاب ( ) سے اپنی لخت جگر ام کلثوم کا نکاح کرتے ؟- 3 علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زبردستی کروایا ہوا کوئی قول یا فعل معتبر نہیں، اس سے نہ طلاق واقع ہوتی ہے، نہ نکاح، نہ غلام آزاد کرنا، نہ کسی کے نام جائداد لگوانا، نہ کوئی اقرار یا انکار یا کفر یہ بات کرنا، ہاں جو کچھ وہ شرح صدر کے ساتھ کرے وہ معتبر ہوگا۔ (سیوطی فی الاکلیل)- فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ : دنیا میں اللہ کا بڑا غضب یہ ہے کہ مرتد ہونے والا مرد ہو یا عورت اگر توبہ نہ کرے تو اس کا قتل واجب ہے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ ) [ بخاری، استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم، باب حکم المرتد۔۔ : ٦٩٢٢ ] ” جو شخص اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو ۔ “ اور آخرت میں عذاب عظیم کی عظمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ - 3 بعض لوگوں نے اپنے پاس سے کہا کہ عورت مرتد ہوجائے تو قتل نہیں کی جائے گی، یہ بات درست نہیں، کیونکہ ” مَنْ “ میں مرد و عورت سبھی شامل ہیں اور عورت کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
خلاصہ تفسیر :- جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے (اس میں کفر بالرسول اور انکار قیامت وغیرہ سب داخل ہیں) مگر جس شخص پر (کافروں کی طرف سے) زبردستی کی جائے (کہ اگر تو کفر کا فلاں کلام یا فلاں قول نہیں کرے گا تو ہم تجھ کو قتل کردیں گے مثلا اور حالات سے اس کا اندازہ بھی ہو کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں) بشرطیکہ اس کا قلب ایمان پر مطمئن ہو (یعنی عقیدے میں کوئی فتور نہ آئے اور اس قول وفعل کو سخت گناہ اور برا سمجھتا ہو تو وہ اس حکم سے مستثنی ہے کہ اس کا ظاہری طور پر کلمہ کفر یا فعل کفر میں مبتلا ہوجانا ایک عذر کی بناء پر ہے۔ اس لئے جو وعید ارتداد کی آ رہی ہے وہ ایسے شخص کے لئے نہیں) لیکن ہاں جو جی کھول کر (یعنی اس کفر کو صحیح اور مستحسن سمجھ کر) کفر کرے تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوگا اور ان کو بڑی سزا ہوگی (اور) یہ (غضب و عذاب) اس سبب سے ہوگا کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا اور اس سبب سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسے کافر لوگوں کو (جو دنیا کو ہمیشہ آخرت پر ترجیح دیں) ہدایت نہیں کیا کرتا (یہ دو سبب الگ الگ نہیں بلکہ مجموعہ سبب ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ عزم فعل کے بعد عادۃ اللہ یہ ہے کہ خلق فعل ہوتا ہے جس پر صدور فعل مرتب ہوتا ہے۔ یہاں استحبوا سے عزم اور لایہدی سے خلق کی طرف اشارہ ہے اور اس مجموعی پر فعل قبیح کا صدور مرتب ہے) یہ وہ لوگ ہیں کہ (دنیا میں ان کے اصرار علی الکفر کی حالت یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے اور یہ لوگ (انجام سے) بالکل غافل ہیں (اس لئے) لازمی بات ہے کہ آخرت میں یہ لوگ بالکل گھاٹے میں رہیں گے۔- معارف و مسائل :- مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس شخص کو کلمہ کفر کہنے پر اس طرح مجبور کردیا گیا کہ اگر یہ کلمہ نہ کہے تو اس کو قتل کردیا جائے اور یہ بھی بظن غالب معلوم ہو کہ دھمکی دینے والے کو اس پر پوری قدرت حاصل ہے تو ایسے اکراہ کی حالت میں اگر وہ زبان سے کلمہ کفر کہہ دے مگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو اور اس کلمہ کو باطل اور برا جانتا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ اس کی بیوی اس پر حرام ہوگی (قرطبی ومظہری) - یہ آیت ان صحابہ کرام (رض) اجمعین کے بارے نازل ہوئی جن کو مشرکین نے گرفتار کرلیا تھا اور کہا تھا کہ یا وہ کفر اختیار کریں ورنہ قتل کردیئے جائیں گے۔- یہ گرفتار ہونے والے حضرات حضرت عمار اور ان کے والدین یاسر اور سمیہ اور صہیب اور بلال اور خباب (رض) تھے جن میں سے حضرت یاسر اور ان کی زوجہ سمیہ نے کلمہ کفر بولنے سے قطعی انکار کیا حضرت یاسر کو قتل کردیا گیا اور حضرت سمیہ کو دو اونٹوں کے درمیان باندھ کر ان کو دوڑایا گیا جس سے ان کو دو ٹکڑے الگ الگ ہو کر شہید ہوئیں اور یہی دو بزرگ ہیں جن کو اسلام کی خاطر سب سے پہلے شہادت نصیب ہوئی اسی طرح حضرت خباب نے کلمہ کفر بولنے سے قطعی انکار کر کے بڑے اطمینان کے ساتھ قتل کئے جانے کو قبول کیا ان میں سے حضرت عمار نے جان کر خوف سے زبانی اقرار کفر کا کرلیا مگر دل ان کا ایمان پر مطمئن اور جما ہوا تھا جب یہ دشمنوں سے رہائی پاکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بڑے رنج وغم کے ساتھ اس واقعہ کا اظہار کیا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت کیا کہ جب تم یہ کلمہ بول رہے تھے تو تمہارے دل کا کیا حال تھا انہوں نے عرض کیا کہ دل تو ایمان پر مطمئن اور جما ہوا تھا اس پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مطمئن کیا کہ تم پر اس کا کوئی وبال نہیں آپ کے اس فیصلہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی ومظہری)- اکراہ کی تعریف وتحدید :- اکراہ کے لفظی معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو ایسے قول یا فعل پر مجبور کیا جائے جس کے کہنے یا کرنے پر وہ راضی نہیں پھر اس کے دو درجے ہیں ایک درجہ اکراہ کا یہ ہے کہ وہ دل سے تو اس پر آمادہ نہیں مگر ایسا بےاختیار وبے قابو بھی نہیں کہ انکار نہ کرسکے یہ فقہا کی اصطلاح میں اکراہ غیر ملجی کہلاتا ہے ایسے اکراہ سے کوئی کلمہ کفر کہنا یا کسی حرام فعل کا ارتکاب کرنا جائز نہیں ہوتا البتہ بعض جزئی احکام میں اس پر بھی کچھ آثار مرتب ہوتے ہیں جو کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں دوسرا درجہ اکراہ کا یہ ہے کہ وہ مسلوب الاختیار کردیا جائے کہ اگر وہ اکراہ کرنے والوں کے کہنے پر عمل نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے گا یہ فقہا کی اصطلاح میں اکراہ ملجی کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں ایسا اکراہ جو انسان کو مسلوب الاختیار اور مجبور محض کر دے ایسے اکراہ کی حالت میں کلمہ کفر کا زبان سے کہہ دینا بشرطیکہ قلب ایمان پر مطمئن ہو جائز ہے اسی طرح دوسرے انسان کو قتل کرنے کے علاوہ اور کوئی حرام فعل کرنے پر مجبور کردیا جائے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہوگا۔- مگر دونوں قسم کے اکراہ میں شرط یہ ہے کہ اکراہ کرنے والا جس کام کی دھمکی دے رہا ہے وہ اس پر قادر بھی ہو اور جو شخص مبتلا ہے اس کو غالب گمان یہ ہو کہ اگر میں اس کی بات نہ مانوں گا تو جس چیز کی دھمکی دے رہا ہے وہ اس کو ضرور کر ڈالے گا (مظہری)- مسئلہ : معاملات دو قسم کے ہیں ایک وہ جن میں دل سے رضا مند ہونا ضروری ہے جیسے خریدو فروخت وہبہ وغیرہ کہ ان میں دل سے رضا مند ہونا معاملہ کے لئے شرط ہے بنص قرآن (آیت) اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُم یعنی کسی دوسرے شخص کا مال حلال نہیں ہوتا جب تک تجارت وغیرہ کا معاملہ طرفین کی رضامندی سے نہ ہو اور حدیث میں ہے۔- لایحل مال امرء مسلم الا بطیب نفس منہ : یعنی کسی مسلمان کا مال اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ خوش دلی سے اس کے دینے پر راضی نہ ہو۔- ایسے معاملات اگر اکراہ کے ساتھ کرا لئے جائیں تو شرعا ان کا کوئی اعتبار نہیں اکراہ کی حالت سے نکلنے کے بعداس کو اختیار ہوگا کہ بحالت اکراہ جو بیع یا ہبہ وغیرہ کیا تھا اس کو اپنی رضا سے باقی رکھے یا فسخ کردے۔- اور کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن میں صرف زبان سے الفاظ کہہ دینے پر مدار ہے دل کا قصد و ارادہ یا رضا و خوشی شرط معاملہ نہیں مثلا نکاح طلاق رجعت عتاق وغیرہ ایسے معاملات کے متعلق حدیث میں ارشاد ہے ثلٹ جدھن جد وھزلہن جد النکاح والطلاق والرجعۃ۔ رواہ ابو داؤد والترمذی وحسنہ (یعنی اگر دو شخص زبان سے نکاح کا ایجاب و قبول شرائط کے مطابق کرلیں یا کوئی شوہر اپنی بیوی کو زبان سے طلاق دیدے یا طلاق کے بعد زبان سے رجعت کرے خواہ وہ بطور ہنسی مذاق کے ہو دل میں ارادہ نکاح یا طلاق یا رجعت کا نہ ہو پھر محض الفاظ کے کہنے سے نکاح منعقد ہوجائے گا اور طلاق پڑجائے گی نیز رجعت صحیح ہوجائے گی (مظہری) - امام اعظم ابوحنیفہ (رح) شعبی زہری نخعی اور قتادہ رحمہم اللہ کے نزدیک طلاق مکرہ کا بھی یہی حکم ہے کہ حالت اکراہ میں اگرچہ وہ طلاق دینے پر دل سے آمادہ نہیں تھا مجبور ہو کر الفاظ طلاق کہہ دیئے اور وقوع طلاق کا تعلق صرف الفاظ طلاق ادا کردینے سے ہے دل کا قصد و ارادہ شرط نہیں جیسا کہ حدیث مذکور سے ثابت ہے اس لئے یہ طلاق واقع ہوجائے گی ،- مگر امام شافعی اور حضرت علی اور ابن عباس (رض) کے نزدیک حالت اکراہ کی طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ حدیث میں ہے۔- رفع عن امتی الخطاء والنسیان وما استکرھوا علیہ رواہ الطبرانی عن ثوبان۔ یعنی میری امت سے خطاء اور نسیان اور جس چیز پر ان کو مضطر و مجبور کردیا جائے سب اٹھا دئیے گئے۔- امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ حدیث احکام آخرت کے متعلق ہے کہ خطاء یا نسیان سے یا اکراہ کی حالت میں جو کوئی قول وفعل شریعت کے خلاف کرلیا اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، باقی رہے احکام دنیا اور وہ نتائج جو اس فعل پر مرتب ہو سکتے ہیں ان کا وقوع تو محسوس ومشاہد ہے اور دنیا میں اس وقوع پر جو آثار و احکام مرتب ہوتے ہیں وہ ہو کر رہیں گے مثلا کسی نے کسی کو خطاء قتل کردیا تو اس کو قتل کا گناہ اور آخرت کی سزا تو بیشک نہ ہوگی مگر جس طرح قتل کا محسوس اثر مقتول کی جان کا چلا جانا واقع ہے اسی طرح اس کا یہ شرعی اثر بھی ثابت ہوگا کہ اس کی بیوی عدت کے بعد نکاح ثانی کرسکے گی اس کا مال وراثت میں تقسیم ہوجائے گا اسی طرح الفاظ طلاق یا نکاح یا رجعت زبان سے ادا کردی تو ان کا شرعی اثر بھی ثابت ہوجائے گا۔ (مظری قرطبی واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم)
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ١٠٦- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- شرح - أصل الشَّرْحِ : بسط اللّحم ونحوه، يقال : شَرَحْتُ اللّحم، وشَرَّحْتُهُ ، ومنه : شَرْحُ الصّدر أي : بسطه بنور إلهي وسكينة من جهة اللہ وروح منه . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي - [ طه 25] ، وقال : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر 22] ، وشرح المشکل من الکلام : بسطه وإظهار ما يخفی من معانيه .- ( ش ر ح )- شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت ( وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر ) پھیلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجاتا ۔ قران میں ہے : ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي[ طه 25] کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر 22] بھلا جس کا سینہ خدا نے کھول دیا ہو ۔ شرح المشکل من الکلام کے معنی مشکل کلام کی تشریح کرنے اور اس کے مخفی معنی کو ظاہر کر نیکے ہیں ۔ - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔- غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مضو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
جبر و اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر کہنا جائز ہے - قول باری ہے (من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تب توخیر) معمر نے عبدالکریم سے، انہوں نے ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر سے اس آیت کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ مشرکین نے حضرت عمار اور ان کے ساتھ مسلمانوں کے ایک گروہ کو پکڑ لیا اور پھر انہیں سخت اذیتیں پہنچانی شروع کردیں یہاں تک کہ مشرکین ان مسلمانوں سے انکار اسلام اور اظہار شرک کا مقصد حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین مکہ غریب اور بےآسرا مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتے تھے۔ حضرت عمار نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی تکلیف بیان کی آپ نے ان سے پوچھا ” تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے ؟ “ حضرت عمار نے جواب دیا۔” میرا دل ایمان پر مطمئن ہے۔ “ اس پر آپ نے فرمایا :” اگر مشرکین تمہیں پھر اذیتیں دیں تو تم لوٹ جائو۔ “ یعنی اپنی زبا ن سے کلمہ کفر نکال دو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جبر اور اکراہ کی حالت میں زبان سے کلمہ کفر نکالنے کے جواز کی بنیاد یہ آیت اور یہ روایت ہے۔ اکراہ کی صورت میں اس کی اباحت ہوجاتی ہے۔ اکراہ کی صورت یہ ہے کہ کسی انسان کو حکم عدولی کی بنا پر اپنی جان چلی جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجائے ۔ ایسی حالت میں اس کے لئے کلمہ کفر کا اظہار مباح ہوگا اور جب اس کے دل میں اس کفر کا خیال گزرے گا تو وہ کلمہ کفر کے ذریعے اپنا خیال کفر کے سوا کسی اور بات کی طرف موڑ دے گا لیکن اگر اس نے کفر کا خیال آتے ہی اپنا خیال کسی اور طرف نہیں موڑا تو وہ کافر ہوجائے گا۔- امام محمد بن الحسن نے فرمایا :” اگر کافر کسی مسلمان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معلق سب و شتم پر مجبور کردیں اور اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور محمد نامی شخص کو گالی دے رہا ہے اگر اس نے اپنے دل میں یہ خیال نہ کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ کلمات کہہ بیٹھا تو و کافر ہوجائے گا، اسی طرح اگر اسے صلیب کو سجدہ کرنے پر مجبور کردیا جائے اور اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ اللہ کو سجدہ کرے گا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور صلیب کو سجدہ کرلیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کافر اسے سوچنے کا موقعہ ہی نہ دیں اور اس کے دل میں کوئی خیال پیدا نہ ہو سکے اور وہ اپنی زبان سے وہ کلمہ کہہ دے یا وہ کام کرلے جس پر اسے مجبور کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں وہ کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کے دل میں وہ خیال گزرے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو اس کے ساتھ اس کے لئے ممکن ہوجائے گا کہ وہ سب و شتم کا رخ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے سوا کسی اور کی طرف پھیر دے کیونکہ اس ضمیر یعنی دل میں پیدا ہونے والے خیال پر مجبور نہیں کیا گیا تھا اسے صرف زبان سے کہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کے لئے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ دل کے خیال کو کسی اور کی طرف موڑ دے لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس نے گویا کسی اکراہ کے بغیر کفر کے اظہار کو قبول کرلیا اس لئے اس پر کفر کا حکم عائد ہوجائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار کو یہ حکم دیا تھا کہ اگر مشرکین تمہیں پھر اذیتیں دیں تو تم لوٹ جائو۔ “ یعنی اپنی زبان سے کلمہ کفر نکال دو ۔ آپ کا یہ حکم دراصل اباحت پر محمول ہے، ایجاب یا استحباب پر محمول نہیں ہے۔- جبر و اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر سے باز رہ کر قتل ہوجانا عزیمت اور افضلیت ہے - ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ افضل صورت یہ ہے کہ وہ تقیہ نہ کرے اور نہ ہی کفر کا اظہار کرے بلکہ قتل ہوجائے۔ اگر متبادل صورت اس کے لئے مباح ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت خبیب بن عدی کو جب مکہ والوں نے قتل کردینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے تقیہ نہیں کیا، یعنی اپنی اجن بچانے کے لئے کلمہ کفر کا اظہار نہیں بلکہ قتل ہوگئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے نزدیک حضرت عمار سے افضل قرار پائے جنہوں نے تقیہ کر کے اپنی اجن بچا لی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تقیہ نہ کر کے اپنے اسلام کے اظہار میں دین کو سربلند کرنے اور کافروں کو غیظ و غضب میں مبتلا کرنے کا پہلو موجود ہوتا ہے اس لئے ایسے شخص کی حیثیت اس مجاہد جیسی ہوجاتی ہے جو کافروں سے لڑتے لڑتے شہید ہوجاتا ہے۔- اس موقعہ پر اکراہ کا صرف یہ اثر ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے کلمہ کفر کہنے والے کا گناہ ساقط ہوجاتا ہے اور اس کی حیثیت یہ ہوجاتی ہے کہ اس نے گویا کچھ کہا ہی نہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (رفع عن امتی الخطاء و النسیان وما استکرھوا علیہ میری امت سے خطا اور نسیان نیز اس فعل کا گناہ اٹھایا لیا ہے جس پر انہیں مجبور کردیا گیا ہو) آپ نے مکرہ یعنی مجبور انسا ن کو گناہ ساقط ہونے کے لحاظ سے مخطی اور ناسی کی طرح قرار دیا اس لئے اگر کوئی انسان بھول کر غلطی سے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکال بیٹھے تو اس کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ عائد نہیں ہوگا اور نہ اس بنا پر کوئی حکم اس پر لگایا جائے گا۔- مجبور آدمی کی طلاق، غناق، نکاح اور قسم کی حیثیت - مکرہ یعنی مجبور انسان کی طلاق، عتاق اور نکاح نیز قسم کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی نے اکراہ کے تحت درج بالا کو ئیک ام کرلیا تو وہ اسے لازم ہوجائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اکراہ کی صورت میں درج بالا امور میں سے کوئی امر اسے لازم نہیں ہوگا۔ ان امور کے لزوم کے حکم پر ظاہر قول باری (فان طلقھا فلا تحل لہ من یعد حتی تنکح زوجاً غیرہ اگر پھر اس نے اسے طلاق دے دی تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے) اس آیت میں مکروہ یعنی مجبور اور طائع یعنی اپنی مرضی سے طالق دینے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واوفوا بعھدا اللہ اذا عاھد تم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اسے کوئی عہد باندھا اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو) آیت میں مکروہ اور غیرہ مکرہ کے عہد کے درمیان کوی فرق نہیں کیا گیا۔ نیز ارشاد ہوا (ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھائو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (کل طلاق جائز الا خلاق المعتوہ دیوانے کی طلاق کے سوا ہر طلاق درست ہوتی ہے)- اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے یونس بن بکیر نے الولید بن جمیع الزہری سے نقل کی ہے انہوں نے ابو الطفیل سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ سے وہ فرماتے ہیں جنہیں اور میرے والد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے کے لئے نکلے آپ اس وقت بدر کی طرف روانہ ہوچکے تھے ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے پاس جانا چاہتے ہو ہم نے کہا کہ ہم محمد (ﷺ) کے پاس نہیں جا رہے بلکہ مدینہ جا رہے ہیں کافروں نے کہا کہ ” ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد کرو تم مدینہ جائو گے اور محمد (ﷺ) کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ نہیں کرو گے تاہم نے اللہ کے نام پر ان سے یہ عہد کرلیا۔ پھر ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے آپ اس وقت بدر کی طرف جا رہے تھے ہم نے آپ سے تمام ماجرا بیان کیا اور عرض کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا ان کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور ان کے خلاف اللہ سے استعانت طلب کرو، چناچہ ہم مدینہ کی طرف لوٹ گئے اور اس عہد کی وجہ سے ہم معرکہ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ ناریک پیچھے ہو سکے :- اس روایت کے مطابق ان دونوں حضرات سے مشرکین نے بجرہ و اکراہ وعہدہ لیا تھا ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی توثیق فرما دی اور ان کی اس قسم کو وہی حیثیت دے دی جو اپنی مرضی سے کھائی ہوئی قسم کی ہوئی ہے جب قسم کے اندر اس کا ثبوت ہوگیا تو طلاق، عتاق اور نکاح بھی قسم کی طرح قرار پائے۔ اس لئے کہ کسی نے بھی ان امور کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن خبیب کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے نقل کی ہے، انہوں نے یوسف بن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ثلاث جدھن جد وھزلھن جدالنکاح و الطلاق والرجعہ تین امور ایسے ہیں کہ انسان خواہ انہیں سنجیدگی سے کرے یا مذاق کے طور پر ہر صورت میں انہیں سنجیدگی پر محمول کیا جائے گا اول نکاح، دوم طلاق سوم بیوی سے رجوع )- جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان امور میں جاد اور ھازل یعنی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں کی حیثیت یکساں رکھی نیز جد اور ھزل یعنی سنجیدگی اور مذاق کے درمیان یہ فرق ہے کہ سنجیدہ انسان لفظ کا قصد کرتا ہے اور اس کے ذریعے اس کا حکم واقع کردیتا ہے جبکہ غیر سنجیدہ یعنی مذاق کے طور پر منہ سے لفظ نکالنے والا انسان لفظ کا تو قصد کرتا ہے لیکن اس کے دل میں اس لفظ کا حکم واقع کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ طلاق کی نخعی میں ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جاد اور ھازل دونوں پر اس حیثیت سے طلاق کا حکم ثابت ہوجائے گا کہ دونوں لفظ کا قصد کرتے ہیں۔ اس طرح مکرہ لفظ کا قصد کرتا ہے لفظ کا حکم واقع کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اس لئے وہ اور ہازل دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں۔- طلاق بالجبر - اگر یہ کہا جائے کہ جس شخص کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا جائے تو کلمہ کفر کہنے کی وجہ سے اس کی بیوی بائنی نہیں ہوتی بلکہ بیوی کے بائن ہوجانے کے مسئلے میں بخوشی کلمہ کفر کہنے والے اور اکراہ کے طور پر کلمہ کفر کہنے والے کے حکم میں فرق ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب کردیتا ہے۔ اس بنا پر یہ لازم ہوگیا کہ اکراہ کے تحت طلاق دینے والے اور بخوشی طلاق دینے والے کے حکم میں فرق رکھا جائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کفر کا لفظ نہ تو صریحاً علیحدگی کا لفظ ہے اور نہ کنایۃ بلکہ اس لفظ سے صرف علیحدگی واقع ہوجاتی ہے۔ جب میاں بیوی میں سے کوئی کافر ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ایک شخص کو اگر کفر پر مجبور کردیا جائے تو وہ کافر نہیں ہوتا۔ جب وہ کلمہ کفر کے اظہار کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا تو اس بنا پر علیحدگی بھی واقع نہیں ہوتی۔ رہ گیا طلاق کا لفظ تو یہ علیحدگی اور جدانی کا لفظ ہے اور ایک مکلف کی زبان سے نکلے ہوئے اس لفظ کے ذریعے اس کی بیوی پر یہ واقع ہوجاتا ہے اس لئے طلاق کا لفظ واقع کرنے والا شوہر خواہ مکرہ ہو یا غیر مکرہ دونوں صورتوں میں اس کا یکساں ہونا ضروری ہوگیا۔- اگر کوئی یہ کہے کہ طلاق کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتوں کی یکسانیت اکراہ اور غیر اکراہ کی حالتوں میں یکسانیت کی موجب نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کفر کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتیں یکساں ہوتی ہیں لیکن اکراہ اور غیر اکراہ کی حالتیں یکساں نہیں ہوتیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ کب کہا ہے کہ ہر وہ امر جس کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتیں یکساں ہوتی ہیں اس میں اکراہ اور غیر اکراہ یعنی طوع یا رضا مندی کی حالتیں بھی یکساں ہوتی ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہا ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق کے سلسلے میں جاد اور ہازل یعنی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں کو یکساں قرار دیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں طلاق کے ذریعے قول کے اندر قصد کے وجود کے بعد طلاق واقع کرنے کے قصد کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ اس سے ہم نے یہ استدلال کیا کہ ایک مکلف کی طرف سے طلاق دینے والے لفظ کے وجود کے بعد اسے واقع کرنے کے قصد کے اعتبار کئی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رہ گیا کفر تو اس کے حکم کا تعلق قصد اور ارادے کے ساتھ ہوتا ہے قول کے ساتھ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص سنجیدگی یا مذاق کے طور پر کفر کا قصد کرتا ہے اس پر کلمہ کفر زبان پر لانے سے پہلے ہی کفر کا حکم لگ جاتا ہے جبکہ طلاق دینے کا قصد کرنے والا جب تک اپنی زبان پر طلاق کا لفظ نہیں لاتا طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ان دونوں کے درمیان فرق اس بات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی شخص بھول کر بھی اپنی زبان پر طلاق کا لفظ لے آتا ہے اس کی طلاق واقع ہوئی جاتی ہے لیکن نسیان کے طور پر کلمہ کفر زبان پر لانے کی وجہ سے ایک شخص کافر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی شخص اگر سبقت لسانی کی وجہ سے غلطی سے کلمہ کہہ بیٹھے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا لیکن اگر سبقت لسانی کی وجہ سے وہ غلطی سے اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ چیز دونوں باتوں کے درمیان فرق کو واضح کردیتی ہے۔- طلاق بالجبر کی مختلف صورتیں - حضرت علی، حضرت عمر، سعید بن المسیب، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ مکرہ کی دی ہوئی طلاق درست ہوتی ہے ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن الزبیر ، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح ، کرمہ، طائوس اور جابربن زید سے مروی ہے کہ مکرہ کی دی ہوئی طلاق درست نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے حصین سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ اگر سلطان کسی شخص کو طلا قدینے پر مجبور رکے تو اس کی دی ہوئی طلاق درست ہوتی ہے اور اگر کوئی اور اسے طلاق دینے پر مجبور کرے تو پھر ایسی طلاق درست نہیں ہوتی۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص کو شراب پینے یا مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے اور بصورت دیگر اس کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس کے لئے نہ کھانے یا نہ پینے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ اگر اس نے نہ کھایا یا نہ پیا اور اپنی جان گنوا بیٹھایا کسی عضو سے محروم کردیا گیا تو اس صورت میں وہ گنہگار قرار پائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جان کے خطرے کی صورت میں ضرورت کی حالت کے اندر اس کے لئے ایسا کرلینا مباح کردیا تھا چناچہ ارشاد ہے (الا ما اضطر تم الیہ مگر یہ کہ تم اسے کھانے پر ضرورت کے تحت مجبور ہو جائو) جو شخص ضرورت کے وقت مردار نہ کھائے اور بھوک سے مرجائے وہ گنہگار ٹھہرے گا جس طرح ایک شخص روٹی نہ کھائے اور بھوک سے مرجائے۔ اس کی حیثیت کفر پر اکراہ کی طرح نہیں ہوگی جس میں تقیہ نہ کرنا افضل ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سمعی دلیل کی بنا پر مردار کھانا یا شراب پینا حرام ہے لیکن جب سمعی دلیل ان دونوں چیزوں کو مباح کر دے تو پھر ممانعت کا حکم زائل ہوجائے گا اور ان کی حیثیت دوسری تمام مباح چیزوں کی طر ح ہوجائے گی۔- اس کے برعکس کفر کا اظہار عقلی طور پر ممنوع ہے اور ضرورت کی بنا پر اس کی اباحت جائز نہیں ہوتی۔ البتہ اتنی بات جائز ہوتی ہے کہ توریہ اور کنایہ کے طور پر کلمہ کفر کا اظہار کر کے غیر کفر کے معنی مراد لئے جائیں جس کے ساتھ کفر کے اس معنی کا دل میں اعتقاد نہ ہو جس کے لئے اسے مجبور کیا جا رہا ہو۔ اس صورت میں کفر کا یہ لفظ اس شخص کے کلمہ کفر کی طرح ہوگا جو بھول کر یا سبقت لسانی کی وجہ سے یہ کلمہ اپنی زبا نپر لے آتا ہے ۔ اس کے لئے کلمہ کفر کا اظہار نہ کرنا اولی اور افضل ہوتا ہے اگرچہ جان کے خطرے کی صورت میں اس کے لئے اس کے اظہار کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی جان لینے یا کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرنے پر مجبور کردیا جائے تو اس کے لئے اس اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اس لئے کہ ان امور کا شمار حقوق العباد میں ہوتا ہے جن میں یہ دونوں افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے اس صورت میں اسے کسی استحقاق کے بغیر دوسرے کی جان لے کر اپنی جان بچانا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی صورت میں اس کی ناموس کی ایسے طریقے سے بےحرمتی ہوتی ہے جس کی ضرورت کے تحت اباحت نہیں ہوتی نیز اس کے دامن پر ہمیشہ کے لئے ننگ و عار کا دھبہ لگ جاتا ہے اس بنا پر اگر کسی شخص کو اس فعل بد پر مجبور کردیا جائے تو بھی اس کے لئے اس کے ارتکاب کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ہمارے فقہاء کے نزدیک قذف یعنی کسی پر زنا کی تہمت دکا لینے پر مجبور کرنے کی یہ حیثیت نہیں ہے اس صورت میں مکرہ کے لئے ایسے اقدام کا جواز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکراہ کے طریقے سے لگائی گئی تہمت کا اس شخص پر کوئی اثر نہیں ہوتا جس پر یہ تہمت لگانی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے دامن پر کوئی دھبہ آتا ہے۔- جبرواکراہ کا خلاصہ بحث - درج بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکراہ کے احکام کی مختلف صورتیں ہیں بعض صورتوں میں تقیہ کرنا واجب ہوتا ہے ۔ مثلاً شراب پینے یا مردار کھانے یا اسی قسم کے کسی اور حرام کام کے سلسلے میں اکراہ جس کی ممانعت کسی سمعی دلیل کی بنا پر ثابت ہو۔ بعض صورتیں وہ ہیں جن میں جان بچانے کی خاطر تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کو بلا جواز قتل کردینے یا کسی عورت کی عصمت دری پر اکراہ یا اس قسم کا کوئی اور فعل جس سے کسی آدمی کے حقوق کی پامالی لازم آتی ہو اور جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس فعل کے ارتکاب کا جواز ہوتا ہے جس پر کسی کو مجبور کردیا جائے لیکن اس کا ترک افضل ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو کفر یا اس جیسے کسی اور فعل پر مجبور کردینا وغیرہ۔- جبر و اکراہ کا خلاصہ بحث - درج بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکراہ کے احکام کی مختلف صورتیں ہیں۔ بعض صورتوں میں تقیہ کرنا واجب ہوتا ہے۔ مثلاً شراب پینے یا مردار کھانے یا اسی قسم کے کسی اور حرام کام کے سلسلے میں اکراہ جس کی ممانعت کسی سمعی دلیل کی بنا پر ثابت ہو ۔ بعض صورتیں وہ ہیں جن میں جان بچانے کی خاطر تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا مثلاً کسی کو بلا جواز قتل کردینے یا کسی عورت کی عصمت دری پر اکراہ یا اسی قسم کا کوئی اور فعل جس سے کسی آدمی کے حقوق کی پامالی لازم آتی ہو اور جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس فعل کے ارتکاب کا جواز ہوتا ہے جس پر کسی کو مجبور کردیا جائے لیکن اس کا ترک افضل ہوتا ہے مثلاً کسی کو کفر یا اس جیسے کسی اور فعل پر مجبور کردینا وغیرہ
(١٠٦) جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے مگر جس پر کلمہ کہنے پر زبردستی کی جائے بشرطیکہ اس کا دل مضبوطی کے ساتھ ایمان پر قائم ہو یہ آیت حضرت عمار بن عاسر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن ہاں جو دانستہ کلمہ کفر کہے تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوگا اور ان کو دنیاوی سزا سے زیادہ سخت سز اہو گی۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ الا من اکرہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہنے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارشاد فرمایا تو مشرکین نے حضرت بلال (رض) ، حضرت خباب (رض) اور حضرت عمار بن یاسر (رض) کو پکڑ لیا، چناچہ حضرت عمار نے کفار کے مجبور کرنے پر ظاہری طور پر کفار کی مرضی کی بات کہہ دیا تو کفار نے ان کو چھوڑ دیا، جب وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا جب تم نے یہ بات کہی تھی تو تمہارے دل کی کیا کیفیت تھی کیا تمہارا دل تمہاری اس بات پر مطمئن تھا، حضرت عمار (رض) نے عرض کیا ہرگز نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی مگر جس شخص پر زبردستی کی جائے بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن و۔- نیز مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مکہ کے چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا چناچہ چند صحابہ کرام (رض) نے مدینہ منورہ سے ان کو لکھا کہ ہجرت کرکے چلے آؤ، چناچہ وہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے راستے میں ان کو قریش نے پکڑ لیا، غرض کہ مجبورا زبردستی انہوں نے اپنی زبانوں سے اس قسم کے کلمات کہہ دیے ان میں ان ہی حضرات کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔- اور ابن سعد نے طبقات میں عمر بن حکم (رض) سے روایت کیا ہے حضرت عمار بن یاسر (رض) کو کفار کی طرف سے اس قدر تکلیف دی جاتی تھی کہ ان کو یہ احساس تک نہیں رہتا تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور حضرت صہیب (رض) کو بھی اسی طرح تکلیف دی جاتی تھی اور ان کی بھی یہی حالت ہوجاتی تھی اور حضرت ابو فکیھۃ کو بھی اسی شدت کے ساتھ تکلیف دی جاتی تھی اور اس کی بھی یہی حالت ہوجاتی تھی۔
آیت ١٠٦ (مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ)- اس کا اطلاق ایمان کی دونوں کیفیتوں پر ہوگا۔ ایک یہ کہ دل میں ایمان آگیا بات پوری طرح دل میں بیٹھ گئی ‘ دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہوگئی کہ ہاں یہی حق ہے مگر زبان سے ابھی اقرار نہیں کیا۔ ایمان کی دوسری کیفیت یہ ہے کہ دل بھی ایمان لے آیا اور زبان سے ایمان کا اقرار بھی کرلیا۔ چناچہ ان دونوں درجوں میں سے کسی بھی درجے میں اگر انسان نے حق کو حق جان لیا دل میں یقین پیدا ہوگیا مگر پھر کسی مصلحت کا شکار ہوگیا اور حق کا ساتھ دینے سے کنی کترا گیا تو اس پر اس حکم کا اطلاق ہوگا۔- (اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ )- کسی کی جان پر بنی ہوئی تھی اور اس حالت میں کوئی کلمہ کفر اس کی زبان سے ادا ہوگیا مگر اس کا دل بدستور حالت ایمان میں مطمئن رہا تو ایسا شخص اللہ کے ہاں معذور سمجھا جائے گا۔- (وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ)- اوپر بیان کیے گئے استثناء کے مطابق مجبوری کی حالت میں تو کلمہ کفر کہنے والے کو معاف کردیا جائے گا (بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہو) مگر جو شخص کسی وجہ سے پورے شرح صدر کے ساتھ کفر کی طرف لوٹ گیا ‘ وہ اللہ کے غضب اور بہت بڑے عذاب کا مستحق ہوگیا۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :109 اس آیت میں ان مسلمانوں کے معاملے سے بحث کی گئی ہے جن پر اس وقت سخت مظالم توڑے جارہے تھے اور ناقابل برداشت اذیتیں دے دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا ۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کے لیے کلمہ ٔ کفر زبان سے ادا کردو ، اور دل تمہارا عقیدہ کفر سے محفوظ ہو ، تو معاف کر دیا جائے گا ۔ لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کر لیا تو دنیا میں چاہے جان بچا لو ، خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دینا چاہیے ۔ بلکہ یہ صرف رخصت ہے ۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبورا ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہوگا ۔ ورنہ مقامِ عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکا بوٹی کر ڈالا جائے بہرحال وہ کلمہ حق ہی کا اعلان کرتا رہے ۔ دونوں قسم کی نظیریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پائی جاتی ہیں ۔ ایک طرف خباب رضی اللہ عنہ بن اَرت ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی ، مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے ۔ بلال رضی اللہ عنہ حبشی ہیں جن کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا ، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے ۔ حبیب بن زید رضی اللہ عنہ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مسیلمہ کذاب کے حکم سے کاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں ، مگ ہر مرتبہ وہ اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انہوں نے جان دے دی ۔ دوسری طرف عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا ، پھر ان کو اتنی ناقابل برداشت اذیت دی گئی کہ آخر انہوں نے جان بچانے کے لیے ہو سب کچھ کہہ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے ۔ پھر وہ روتے روتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْتُ اٰ لِھَتَھُمْ بِخَیْرٍ ۔ ” یا رسول اللہ ، مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپ کو برا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا “ ۔ حضور نے پوچھا کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ ۔ ” اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو“؟ عرض کیا مُطْمَئِنًا بِالْاِیْمَانِ ۔ ” ایمان پر پوری طرح مطمئن“ ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان عَادُوْا فَعُدْ ۔ ” اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا“ ۔
46: یعنی کسی شخص کو جان کا خوف ہو کہ اگر زبان سے کفر کا کلمہ نہیں کہے گا تو جان چلی جائے گی، تو ایسا شخص معذور ہے، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن اﷲ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوگا جو اپنے اختیار سے کفر کی باتیں کرے۔