Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حلال و حرام صرف اللہ کی طرف سے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی دی ہوئی پاک روزی حلال کرتا ہے اور شکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ اس لئے کہ نعمتوں کا داتا وہی ہے ، اسی لئے عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک ہے ، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ۔ پھر ان چیزوں کا بیان فرما رہا ہے جو اس نے مسلمانوں پر حرام کر دی ہیں جس میں ان کے دین کا نقصان بھی ہے اور ان کی دنیا کا نقصان بھی ہے جیسے از خود مرا ہوا جانور اور بوقت ذبح کیا جائے ۔ لیکن جو شخص ان کے کھانے کی طرف بےبس ، لاچار ، عاجز ، محتاج ، بےقرار ہو جائے اور انہیں کھا لے تو اللہ بخشش و رحمت سے کام لینے والا ہے ۔ سورہ بقرہ میں اسی جیسی آیت گزر چکی ہے اور وہیں اس کی کامل تفسیر بھی بیان کر دی اب دوبارہ دہرانے کی حاجت نہیں فالحمد اللہ پھر کافروں کے رویہ سے مسلمانوں کو روک رہا ہے کہ جس طرح انہوں نے از خود اپنی سمجھ سے حلت حرمت قائم کر لی ہے تم نہ کرو آپس میں طے کر لیا کہ فلاں کے نام سے منسوب جانور حرمت و عزت والا ہے ۔ بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام وغیرہ تو فرمان ہے کہ اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے الزام رکھ کر آپ حلال حرام نہ ٹھہرا لو ۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی بدعت کو نکالے جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو ۔ یا اللہ کے حرام کو حلال کرے یا مباح کو حرام قرار دے اور اپنی رائے اور تشبیہ سے احکام ایجاد کرے ۔ لما تصف میں ما مصدریہ ہے یعنی تم اپنی زبان سے حلال حرام کا جھوٹ وصف نہ گھڑ لو ۔ ایسے لوگ دنیا کی فلاح سے آخرت کی نجات سے محروم ہو جاتے ہیں دنیا میں گو تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن مرتے ہی المناک عذابوں کا لقمہ بنیں گے ۔ یہاں کچھ عیش و عشرت کرلیں وہاں بےبسی کے ساتھ سخت عذاب برداشت کرنے پڑیں گے ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں ۔ دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں پھر ہم ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سخت عذاب چکھائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

114۔ 1 اس کا مطلب یہ ہوا کہ حلال وطیب چیزوں سے تجاوز کر کے حرام اور خبیث چیزوں کا استعمال اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٧] اس آیت میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور انھیں سمجھایا یہ جارہا ہے کہ کفران نعمت اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے بدلے اللہ اپنی نعمتیں بھی چھین لیتا ہے اور ایسے مجرموں پر عذاب بھی مسلط کردیتا ہے۔ لہذا اگر تم ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہا کرو۔ اسی کی بندگی کرو۔ اس کی نافرمانی سے اجتناب کرو اور رزق حلال کی تلاش کرو۔ حرام اور گندی چیزوں سے پرہیز کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا۔۔ : مشرکین نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اس کے ساتھ شریک بنائے تو اے ایمان والو اگر تم واقعی صرف اللہ کی بندگی کرتے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو لازم ہے کہ اپنی عقل اور مصلحت کے بل بوتے پر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہ دو ، جیسا کہ مشرکوں نے اپنے پاس سے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دے رکھا ہے، حالانکہ یہ کہیں اللہ کا حکم نہیں اور مردار اور خون وغیرہ کو حلال کر رکھا ہے جنھیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ سو تم صرف انھی چیزوں کو کھاؤ جنھیں اللہ نے حلال اور طیب قرار دیا ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر کفار کی ناشکری اور اس کے عذاب کا ذکر تھا مذکورہ آیات میں اول تو مسلمانوں کو اس کی ہدایت کی گئی کہ وہ ناشکری نہ کریں اللہ تعالیٰ نے جو حلال نعمتیں ان کو دی ہیں ان کو شکر کے ساتھ استعمال کریں اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ کفار و مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی ایک خاص صورت یہ بھی اختیار کر رکھی تھی کہ بہت سی چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال کیا تھا اپنی طرف سے ان کو حرام کہنے لگے اور بہت سی چیزیں جن کو اللہ نے حرام کہا تھا ان کو حلال کہنے لگے مسلمانوں کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ وہ ایسا نہ کریں کسی چیز کا حلال یا حرام کرنا صرف اس ذات کا حق ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اپنی طرف سے ایسا کرنا خدائی اختیارات میں دخل دینا اور اللہ تعالیٰ پر افترا کرنا ہے۔ آخر میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے جہالت سے اس طرح کے جرائم کئے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں اگر وہ توبہ کرلیں اور صحیح ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ سب گناہ بخش دیں گے مختصر تفسیر آیات کی یہ ہے۔- سو جو چیزیں تم کو اللہ نے حلال اور پاک دی ہیں ان کو (حرام نہ سمجھو کہ یہ مشرکین کی جاہلانہ رسم ہے بلکہ) ان کو کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم (اپنے دعوے کے مطابق) اسی کی عبادت کرتے ہو تم پر تو (منجملہ ان چیزوں کے جن کو تم حرام کہتے ہو اللہ تعالیٰ نے) صرف مردار کو حرام کیا ہے اور خون کو اور خنزیر کے گوشت (وغیرہ) کو اور جس چیز کو غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو پھر جو شخص کہ (مارے فاقہ کے) بالکل بےقرار ہوجائے بشرطیکہ طالب لذت نہ ہو اور نہ حد (ضرورت) سے تجاوز کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ (اس کے لئے اگر وہ ان چیزوں کو کھالے) بخش دینے والا مہربانی کرنے والا ہے اور جن چیزوں کے متعلق محض تمہارا جھوٹا زبانی دعوی ہے (اور اس پر کوئی دلیل صحیح قائم نہیں) ان کے متعلق یوں نہ کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال اور فلاں حرام ہے (جیسا کہ پارہ ہشتم کے ربع کے قریب آیات وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ میں ان کے ایسے جھوٹے دعوے آچکے ہیں) جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگاؤ گے (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایسا نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف فرمایا ہے) بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔ (خواہ دنیا وآخرت دونوں میں یا صرف آخرت میں) یہ (دنیا میں) چند روزہ عیش ہے (اور آگے مرنے کے بعد) ان کے لئے درد ناک سزا ہے اور (یہ مشرکین ملت ابراہیمی کے متبع ہونے کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ ان کی شریعت میں تو یہ چیزیں حرام نہ تھیں جن کو انہوں نے حرام قرار دے دیا ہے البتہ بہت زمانے کے بعد ان اشیاء میں سے) صرف یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا بیان ہم اس کے قبل ( سورة انعام میں) آپ سے کرچکے ہیں (اور ان کی تحریم میں بھی) ہم نے ان پر (صورۃ بھی) کوئی زیادتی نہیں کی لیکن وہ خود ہی اپنے اوپر (انبیاء کی مخالفت کرکے) زیادتی کیا کرتے تھے (تو معلوم ہوا کہ اشیاء طیبہ کو بالقصد تو کبھی حرام نہیں کیا گیا اور شریعت ابراہیمی میں کسی وقتی ضرورت کی وجہ سے بھی نہیں ہوئی پھر یہ تم نے کہاں سے گھڑ لیا)- پھر آپ کا رب ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے جہالت سے برا کام (خواہ کچھ بھی ہو) کرلیا پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور (آئندہ کے لئے) اپنے اعمال درست کر لئے تو آپ کا رب اس کے بعد بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا ۠ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ١١٤؁- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٤) سو کھیتیاں اور جانور اور نعمتیں کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو یعنی اگر تم کھیتیوں اور جانوروں کو خود اپنے اوپر حرام کرلینے میں اللہ کی عبادت سمجھتے ہو تو ان چیزوں کو اپنے اوپر حلال کرلو کیوں کہ اللہ کی عبادت ان کے حلال سمجھنے میں ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ )- نوٹ کیجیے کہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر مختلف انداز میں اس سورت میں بار بار آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :113 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :114 یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو ، جیسا کہ تمہارا دعوی ہے ، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو ۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو ۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: جس ناشکری کے پیچھے مذمت کی گئی ہے اسی کی ایک صورت مشرکین عرب نے یہ اختیار کر رکھی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں کو من گھڑت طریقے سے حرام قرار دے رکھا تھا، جس کی تفصیل سورۃ انعام (139 تا 145) میں گذر چکی ہے۔ یہاں نا شکری کی اس خاص صورت سے منع کیا جا رہا ہے۔