Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٠] حلال وحرام بنانے والے خود اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں :۔ یعنی مشرکوں کا بعض جانوروں کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑنا، اپنی کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے نام پر اور کچھ بتوں کے نام پر وقف کرنا پھر اللہ کے حصہ میں سے معبودوں کے حصہ کی کمی کو پورا کردینا وغیرہ ایسے سب افعال کا ذکر سورة انعام کی آیت نمبر ١٣٥ کے تحت گذر چکا ہے۔ اور ایسے سب افعال کا فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ آستانوں کے مجاوروں یا مہنتوں کو پہنچتا تھا۔ وہی ایسی شرکیہ باتوں کو گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس طرح دنیوی فائدے حاصل کرتے تھے اور اپنے چند روزہ دنیوی مفاد کی خاطر بہت سی خلقت کو شرک میں مبتلا کر رکھا تھا ایسے لوگوں کو سخت دکھ دینے والی مار پڑے گی کیونکہ انہوں نے اپنے چند روزہ دنیوی فائدہ کی خاطر بیشمار اللہ کے بندوں کو شرک جیسے گناہ عظیم میں مبتلا کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَتَاعٌ قَلِيْلٌ ۠ وَّلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١١٧؁- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٧) ان کی دنیا میں یہ عیش چند روزہ ہے اور پھر آخرت میں درد ناک سزا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :117 یہ پورا پیراگراف ان اعتراضات کے جواب میں ہے جو مذکورہ بالا حکم پر کیے جا رہے تھے ۔ کفار مکہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کو تم نے حلال کر رکھا ہے ۔ اگر وہ شریعت خدا کی طرف سے تھی تو تم خود اس کی خلاف ورزی کر رہے ہو ۔ اور اگر وہ بھی خدا کی طرف سے تھی اور یہ تمہاری شریعت بھی خدا کی طرف سے ہے تو دونوں میں یہ اختلاف کیسا ہے؟ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں سبت کی حرمت کا جو قانون تھا اس کو بھی تم نے اڑا دیا ہے ۔ یہ تمہارا اپنا خود مختارانہ فعل ہے یا اللہ ہی نے اپنی دو شریعتوں میں دو متضاد حکم دے رکھے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani