دوسروں سے منسوب ہر چیز حرام ہے اوپر بیان گزرا کہ اس امت پر مردار ، خون ، لحم ، خنزیر اور اللہ کے سوا دوسروں کے نام سے منسوب کردہ چیزیں حرام ہیں ۔ پھر جو رخصت اس بارے میں تھی اسے ظاہر فرما کر جو آسانی اس امت پر کی گئی ہے اسے بیان فرمایا ۔ یہودیوں پر ان کی شریعت میں جو حرام تھا اور جو تنگ اور حرج ان پر تھا اسے بیان فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی حرمت کی چیزوں کو پہلے ہی سے تجھے بتا دیا ہے ۔ سورہ انعام کی آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ١١٨ ) 16- النحل:118 ) میں ان حرام چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے ۔ یعنی یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن والے جانوروں کو حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی چربی کو سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا انتڑیوں پر یا ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو ، یہ بدلہ تھا ان کی سرکشی کا ہم اپنے فرمان میں بالکل سچے ہیں ۔ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ہاں وہ خود ناانصاف تھے ۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے وہ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں ، حرام کر دیں دوسری وجہ ان کا راہ حق سے اوروں کو روکنا بھی تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس رحم و کرم کی خبر دیتا ہے جو وہ گنہگار مومنوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ادھر اس نے توبہ کی ، ادھر رحمت کی گود اس کے لئے پھیل گئی ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جاہل ہی ہوتا ہے ۔ توبہ کہتے ہیں گناہ سے ہٹ جانے کو اور اصلاح کہتے ہیں اطاعت پر کمر کس لینے کو پس جو ایسا کرے اس کے گناہ اور اس کی لغزش کے بعد بھی اللہ اسے بخش دیتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے ۔
118۔ 1 دیکھئے سورة الا نعام، (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۭذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ ڮ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :146) کا حاشیہ، نیز سورة نساء۔ (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا) 4 ۔ النساء :160) میں بھی اس کا ذکر ہے
[١٢١] اصلا چار ہی چیزیں حرام ہیں :۔ یہاں سورة انعام کی آیت نمبر ١٤٦ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو سورة نحل سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورة انعام کا نمبر ٥٥ ہے جبکہ اس سورة نحل کا نمبر ٧٠ ہے۔ کفار مکہ کا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو ان چار چیزوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں حرام ہیں جنہیں تم مسلمانوں نے حلال کر رکھا ہے۔ اگر موسوی شریعت بھی اللہ کی طرف سے ہے تو تم اس کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہو ؟ اور اگر موسوی شریعت اور تمہاری شریعت دونوں ہی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں تو ان میں تضاد کیوں ہے ؟ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ بنیادی طور پر جو چیزیں اللہ نے حرام کی ہیں اور جن کا سب کتابوں میں ذکر موجود ہے وہ یہی چار چیزیں ہیں اور یہودیوں پر جو زائد اشیاء حرام کی گئیں تو وہ ان کی اپنی نافرمانیوں اور زیادتیوں کی بنا پر حرام کی گئی تھیں۔
وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا ۔۔ : حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان پر حرام کردہ چیزوں مردار اور خون وغیرہ کا ذکر فرمایا اور صرف مجبوری کے وقت انھیں جائز قرار دینے کا ذکر فرمایا، تاکہ امت پر آسانی رہے تو اس کے بعد یہودیوں پر ان چیزوں کے حرام کرنے کا ذکر فرمایا، جن کا ذکر پہلے سورة نساء (١٦٠) اور سورة انعام (١٤٦) میں گزر چکا ہے، جو پاکیزہ اور حلال ہونے کے باوجود ان کی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کی گئی تھیں اور اس اصر و اغلال میں شامل تھیں جو ان کی سرکشی کی وجہ سے ان پر لادے گئے تھے۔ پھر ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے پر ان کی حرمت ختم ہوئی اور صرف وہ چیزیں حرام کی گئیں جن کا حرام کرنا بطور سزا نہیں بلکہ بطور مصلحت و رحمت تھا۔ - وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (١٦٠، ١٦١) اس سے یہودیوں کے اس دعویٰ کی بھی تردید ہوگئی کہ ان پر حرام کردہ چیزیں ہمیشہ سے حرام چلی آرہی ہیں، اس لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (٩٣) ۔
وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ١١٨- قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے
(١١٨) صرف یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کردیں تھیں جس کا بیان ہم آپ سے اس سورت سے پہلے سورة انعام میں کرچکے ہیں، چربیاں اور گوشت جو چیزیں ہم نے ان حرام کی تھیں ان کو حرام کرکے ہم نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی لیکن انہوں نے گناہ کر کے خود ہی اپنے آپ کو نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام فرمائیں۔
آیت ١١٨ (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ )- اس بارے میں تفصیل سورة آل عمران : ٩٣ ‘ النساء : ١٤٠ اور الانعام : ١٤٦ میں گزر چکی ہے۔ حضرت یعقوب نے اپنی مرضی سے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت حرام کرلیا تھا ‘ جس کی تعمیل بعد میں وہ پوری قوم کرتی رہی۔ اس کے علاوہ مختلف حیوانات کی چربی بھی بنی اسرائیل پر حرام کردی گئی تھی۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :118 اشارہ ہے سورہ انعام کی آیت وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْ ا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرِ ، الاٰ یَۃ ( آیت نمبر ۱٤٦ ) کی طرف ، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث خصوصیت کے ساتھ کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں ۔ اس جگہ ایک اشکال پیش آتا ہے ۔ سورہ نحل کی اس آیت میں سورہ انعام کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ انعام اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ لیکن ایک مقام پر سورہ انعام میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْ کُلُوْ ا مِمَّا ذَکِرَ الْمُ اللہِ عَلَیْہ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ ( آیت نمبر ۱۱۹ ) ۔ اس میں سورہ نحل کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ مکی سورتوں میں سورہ انعام کے سوا بس یہی ایک سورۃ ہے جس میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعد میں؟ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورہ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورہ انعام کی مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا ہے ۔ بعد میں کسی موقع پر کفار مکہ نے سورہ نحل کی ان آیتوں پر وہ اعتراضات وارد کیے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں ۔ اس وقت سورہ انعام نازل ہو چکی تھی ۔ اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے ، یعنی سورہ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں ۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورہ نحل پر کیا گیا تھا اس لیے اس کا جواب بھی سورہ نحل ہی میں جملہ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا ۔
51: بتلانا یہ مقصود ہے کہ کفار مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کا پیرو کہتے تھے، حالانکہ جن حلال چیزوں کو ان مشرکین نے حرام کر رکھا تھا۔ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت ہی سے حلال چلی آتی تھیں۔ البتہ ان میں سے صرف چند چیزوں کو یہودیوں پر بطور سزا حرام کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ سورۃ نساء آیت 16 میں گذر چکا ہے۔ باقی سب چیزیں اس وقت سے آج تک حلال ہی چلی آتی ہیں۔