جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدیات کے امام امام حنفا ، والد انبیاء ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جانے والا ۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد و مومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے ۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدر دان اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدیات کے امام٭٭ امام حنفائ ، والد انبیائ ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گذار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جان والا ۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلای سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے ۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا وابراہیم الذی وفی وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ۔ اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنالیا ۔ جیسے فرمان ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ الخ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءتجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے ۔ قل اننی ہدانی ربی الا صراط مستقیم الخ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے ۔ آیت ( وابراہیم الذی وفی ) وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ۔ اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنا لیا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ 51ۚ ) 21- الأنبياء:51 ) ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت و اطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سید الانبیاء تجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے ۔ آیت ( قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٦١ ) 6- الانعام:161 ) کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے ۔
120۔ 1 اُ مَّۃٌ کے معنی پیشوا اور قائد کے بھی ہیں۔ جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے اور امت بمعنی امت بھی ہے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وجود ایک امت کے برابر تھا۔ (امت کے معانی کے لئے (وَلَىِٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّيَقُوْلُنَّ مَا يَحْبِسُهٗ ۭ اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ) 11 ۔ ہود :8) کا حاشیہ دیکھئے)
[١٢٣] سیدنا ابراہیم کی صفات اور مشرکین کے افعال :۔ مشرکین مکہ چونکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم کا پیرو کار بتاتے تھے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں سیدنا ابراہیم کا ذکر اور ان کے اوصاف بیان فرمائے ان کی سب سے نمایاں اور پہلی صفت یہ ہے کہ وہ باطل کے مقابلہ میں اکیلے ہی ڈٹ گئے تھے۔ ایک طرف کفر و شرک کی علمبردار پوری کی پوری قوم تھی دوسری طرف توحید کا علمبردار صرف فرد واحد تھا۔ اور اس نے اتنا کام کر دکھایا جتنا ایک پوری امت یا ادارے کا ہوتا ہے یہ تو ان کے عزم و ثبات کا حال تھا اور عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ انہوں نے ہر طرح کے سہارے چھوڑ کر ایک اللہ ہی کی طرف رجوع کرلیا تھا اور اللہ کی فرمانبرداری کا یہ حال تھا کہ وہ اسی کے ہی ہو کے رہ گئے تھے اور اس راہ میں انھیں اپنی جان تک کی پروا نہ رہی تھی اور شرک تو انہوں نے نبوت سے پہلے بھی کبھی نہ کیا تھا۔ بعد میں تو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب تم خود سوچ لو کہ تم ان کے پیروکار ہونے کے دعوے میں کس قدر حق بجانب ہو۔
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی : (قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْن) [ الشعراء : ٨٤ ] ” اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔ “ اس لیے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ میں سے ہر ایک ابراہیم (علیہ السلام) کی عزت و تکریم کرنے والا اور ان کی ملت کا متبع ہونے کا دعوے دار تھا، چناچہ فرمایا : (وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ١٠٨ۖسَلٰمٌ عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ) [ الصافات : ١٠٨، ١٠٩ ] ” اور پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ بات چھوڑی کہ ابراہیم پر سلام ہو۔ “ یعنی بعد میں آنے والے سب لوگ ان پر سلام بھیجیں گے، اس لیے اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی صفات اور ان کا منہج بیان فرمایا، جس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ملت ابراہیم پر قائم نہیں ہے۔ - اُمَّةً : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی صفت ” اُمَّةً “ بیان فرمائی۔ اس آیت میں لفظ ” اُمَّةً “ کا معنی پیشوا اور امام بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنِّىْ جَاعِلُكَ للنَّاسِ اِمَامً ) [ البقرۃ : ١٢٤ ] ” بیشک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ “ اور یہ بھی کہ وہ اکیلے ہی ایک امت (جماعت) تھے، کیونکہ اکیلے ہی میں اتنے کمالات تھے جو ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور اکیلے شخص نے اتنا کام کیا جو ایک امت کے برابر تھا۔ تیسرا معنی یہ کہ ایک مدت تک اکیلے ہی وہ اور ان کی بیوی امت مسلمہ تھے، جیسا کہ جبار مصر اور سارہ[ کے واقعہ میں ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے سارہ[ سے کہا کہ اس وقت اس سرزمین میں میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں، سو تم ایمان میں میری بہن ہو۔ [ بخاری : ٣٣٥٨ ]- دوسری صفت ” قَانِتًا لِّلّٰهِ “ بیان فرمائی، یعنی اللہ کے فرماں بردار نہایت عاجزی کے ساتھ، کیونکہ ان دونوں کے مجموعی مفہوم کو قنوت کہتے ہیں۔ - ” حَنِيْفًا “ تیسری صفت ہے، ” حَنَفٌ“ کا معنی ہے ایک طرف جھک جانا، یعنی تمام باطل دینوں سے ہٹ کر حق کی طرف مائل ہونے والا، تمام خداؤں کا انکار کرکے صرف ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا۔ جس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، زندگی اور موت سب ایک اللہ کے لیے تھے۔ دیکھیے سورة انعام (١٦١ تا ١٦٣) ۔- وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : یہ مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ پر تعریض اور ان سب کے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کی نفی کا اظہار ہے کہ وہ تو مشرکوں میں سے نہیں تھے، جب کہ تم سب بتوں کو یا قبروں کو، عزیر یا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور اپنے احبارو رہبان کو رب بنا کر شرک میں گرفتار ہوچکے ہو۔
خلاصہ تفسیر :- ربط آیات :- پچھلی آیات میں اصول شرک و کفر یعنی انکار توحید و انکار رسالت پر رد اور کفر و شرک کے بعض فروع یعنی تحلیل حرام اور تحریم حلال پر رد وابطال کی تفصیل تھی اور مشرکین مکہ مکرمہ جو قرآن کریم کے پہلے اور بلاواسطہ مخاطب تھے اپنے کفر وبت پرستی کے باوجود دعوی یہ کرتے تھے کہ ہم ملت ابراہیمی کے پابند ہیں اور ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات ہیں اس لئے مذکورہ چار آیتوں میں ان کے اس دعوے کی تردید اور انہی کے مسلمات سے ان کے جاہلانہ خیالات کا ابطال اس طرح کیا گیا کہ مذکورہ پانچ آیتوں میں سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تمام اقوام عالم کا مسلم مقتدا ہونا بیان فرمایا جو نبوت و رسالت کا اعلی مقام ہے اس سے ان کا عظیم الشان نبی و رسول ہونا ثابت ہوا اس کے ساتھ ہی مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ سے ان کا کامل توحید پر ہونا بیان فرمایا۔- اور دوسری آیت میں ان کا شکرگزار اور صراط مستقیم پر ہونا بیان فرما کر ان کو تنبیہ کی کہ تم اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اپنے کو ان کا متبع کس زبان سے کہتے ہو ؟- تیسری آیت میں ان کا دنیا وآخرت میں کامیاب و بامراد ہونا اور چوتھی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کے اثبات کے ساتھ آپ کا صحیح ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا پابند ہونا بیان فرما کر یہ ہدایت کی گئی کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور آپ کی اطاعت کے بغیر یہ دعوی صحیح نہیں ہوسکتا۔- پانچویں آیت اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ میں اشارہ یہ بیان فرمایا کہ ملت ابراہیمی میں اشیاء طیبہ حرام نہیں تھیں جن کو تم نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا ہے مختصر تفسیر آیات مذکورہ کی یہ ہے۔- بیشک ابراہیم (علیہ السلام جن کو تم بھی مانتے ہو) بڑے مقتدا (یعنی نبی اولو العزم اور امت عظیمہ کے متبوع ومقتدا) اللہ تعالیٰ کے (پورے) فرمانبردار تھے (ان کا کوئی عقیدہ یا عمل اپنی خواہش نفسانی سے نہ تھا پھر تم اس کے خلاف محض اپنے نفس کی پیروی سے اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیوں ٹھہراتے ہو اور وہ) بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے (اور مطلب ایک طرف ہونے کا یہ ہے کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تو پھر تم شرک کیسے کرتے ہو اور وہ) اللہ کی نعمتوں کے (بڑے) شکر گذار تھے (پھر تم شرک و کفر میں مبتلا ہو کر ناشکری کیوں کرتے ہو غرض ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ شان اور طریقہ تھا اور وہ ایسے مقبول تھے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کرلیا تھا اور ان کو سیدھے راہ پر ڈال دیا تھا اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں (مثل نبوت و رسالت میں منتخب ہونا اور ہدایت پر ہونا وغیرہ) دی تھیں اور وہ آخرت میں بھی (اعلی درجہ کے) اچھے لوگوں میں ہوں گے (اس لئے تم سب کو انہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور وہ طریقہ اب منحصر ہے طریقہ محمدیہ ہیں جس کا بیان یہ ہے کہ) پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے چلئے (اور چونکہ اس زمانہ کے وہ لوگ جو ملت ابراہیمی کے اتباع کے مدعی تھے کچھ نہ کچھ شرک میں مبتلا تھے۔ اس لئے مکرر فرمایا کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تاکہ بت پرستوں کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے موجودہ طریقہ پر بھی رد ہوجائے جو شرک سے خالی نہ تھے اور چونکہ یہ لوگ تحریم طیبات کی جاہلانہ و مشرکانہ رسوم میں مبتلا تھے اس لئے فرمایا کہ) پس ہفتہ کی تعظیم (یعنی ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت جو تحریم طیبات کی ایک فرد ہے وہ تو) صرف انہی لوگوں پر لازم کی گئی تھی جنہوں نے اس میں (عملا) خلاف کیا تھا (کہ کسی نے مانا اور عمل کیا کسی نے اس کے خلاف کیا مراد اس سے یہود ہیں کہ تحریم طیبات کی یہ صورت مثل دوسری صورتوں کے صرف یہود کے ساتھ مخصوص تھی ملت ابراہیمی میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں آگے احکام الہیہ میں اختلاف کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ) بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان میں باہم (عملا) فیصلہ کر دے گا جس بات میں یہ (دنیا میں) اختلاف کیا کرتے تھے۔- معارف و مسائل :- لفظ امت چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے مشہور معنی جماعت اور قوم کے ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے اس جگہ یہی معنی منقول ہیں اور مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ایک فرد ایک امت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع ہیں اور ایک معنی لفظ امت کے مقتدائے قوم اور جامع کمالات کے بھی آتے ہیں بعض مفسرین نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں اور قانت کے معنی تابع فرمان کے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان دونوں وصفوں میں خاص امتیاز رکھتے ہیں مقتدا ہونے کا تو یہ عالم ہے کہ پوری دنیا کے تمام مشہور مذاہب کے لوگ سب آپ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ کی ملت کے اتباع کو عزت وفخر جانتے ہیں یہود نصاری مسلمان تو ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہی ہیں مشرکین عرب بت پرستی کے باوجود اس بت شکن کے معتقد اور ان کی ملت پر چلنے کو اپنا فخر جانتے ہیں اور قانت ومطیع ہونے کا خاص امتیاز ان امتحانات سے واضح ہوجاتا ہے جن سے اللہ کے یہ خلیل گذرے ہیں آتش نمرود اہل و عیال کو لق ودق جنگل میں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم پھر آرزؤں سے حاصل ہونے والے بیٹے کی قربانی پر آمادگی یہ سب وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان القاب سے معزز فرمایا ہے۔
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٠ۙ- قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً- [ النحل 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ- [ الأحزاب 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] .- ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں - حنف - الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] - ( ح ن ف ) الحنف - کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(١٢٠) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے رہنما تھے اور اللہ تعالیٰ کے پورے فرمانبردار تھے اور سچے مسلمان تھے اور وہ مشرکین کے ساتھ ان کے دین پر نہیں تھے۔
آیت ١٢٠ (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ )- اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف (آیت ٤٥) میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے (وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ) ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں فرمایا گیا : (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ) ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :119 یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک امت تھا ۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی ۔ اس اکیلے بندہ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا ۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا ۔