[١٣١] اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو بھی وہ نیکی کے کام کرتے ہیں۔ اسے بہتر سے بہتر طریقہ سے سرانجام دیتے ہیں۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا ۔۔ : یعنی دل تنگ وہ ہو جس کا کوئی ساتھی و مددگار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ تو ہر متقی اور محسن کا ساتھی اور مددگار ہے اور آپ اللہ کے فضل سے تمام متقی اور محسن لوگوں کے سردار ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ ) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة بني إسرائیل : ٣١٤٨، و صححہ الألباني ] ” میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور کوئی فخر نہیں۔ “ پھر آپ دل تنگ کیوں ہوں ؟ احسان کی تفصیل کے دیکھیے سورة نحل کی آیت (٩٠) ، احسان کا مقام تقویٰ سے اونچا ہے۔ - معیت (ساتھ) دو قسم کی ہے، ایک معیت عامہ، یہ ہر شخص بلکہ ہر مخلوق کو حاصل ہے اور اس کے بغیر کوئی چیز باقی نہیں رہ سکتی، فرمایا : (وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ) [ الحدید : ٤ ] ” اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو۔ “ ایک معیت خاصہ ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) سے فرمایا : (لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ اور جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : ( كَلَّا ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٦٢ ] ” ہرگز نہیں، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ “ یہ خاص معیت ہے، یعنی ہمارا مددگار ہے۔ اس آیت میں معیت خاصہ مراد ہے۔
آخری آیت میں پھر ایک عام قاعدہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد حاصل ہونے کے کا یہ بتلادیا (آیت) اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ - جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو دو صفتوں کے حامل ہوں ایک تقوی دوسرے احسان تقوی کا حاصل نیک عمل کرنا اور احسان کا مفہوم اس جگہ خلق خدا تعالیٰ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے یعنی جو لوگ شریعت کے تابع اعمال صالحہ کے پابند ہوں اور دوسروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتے ہوں حق تعالیٰ ان کے ساتھ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معیت (نصرت) حاصل ہو اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔- وللہ الحمد اولا اخرا وظاھرا و باطنا۔- سورة نحل تمام شد
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ ١٢٨ۧ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔
(١٢٨) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والے ہوتے ہیں اور جو کہ قول و عمل ہر ایک اعتبار سے موحد ہوتے ہیں۔
آیت ١٢٨ (اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ )- جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہوئے درجۂ احسان پر فائز ہوگئے ہیں اللہ کی معیت نصرت اور تائید ان کے شامل حال رہے گی۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا تو یہ مشرکین آپ کو کچھ گزند نہیں پہنچا سکتے۔ - کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہے مخالف - کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے - بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذِّکر الحکیم
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :124 یعنی جو خدا سے ڈر کر ہر قسم کے برے طریقوں سے پرہیز کرتے ہیں اور ہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے ہیں ۔ دوسرے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کریں ، وہ ان کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی ہی سے دیے جاتے ہیں ۔
53: ’’ احسان‘‘ بڑا عام لفظ ہے جس میں ہر طرح کے نیک کام داخل ہیں۔ اور ایک حدیث میں اس کی یہ تشریح فرمائی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ جیسے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو، یا کم از کم اس تصور کے ساتھ کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہم اجعلنا من المحسنین۔