17۔ 1 ان تمام نعمتوں سے توحید کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کی اللہ تو ان چیزوں کا خالق ہے، لیکن اس کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو، انہوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے ؟ نہیں، بلکہ وہ تو خود اللہ کی مخلوق ہیں۔ پھر بھلا خالق اور مخلوق کس طرح برابر ہوسکتے ہیں ؟ جبکہ تم انھیں معبود بنا کر اللہ کا برابر ٹھہرا رکھا ہے۔ کیا تم ذرا نہیں سوچتے ؟
[١٨] اوپر اللہ تعالیٰ کی جس قدر نشانیاں اور قدرتیں مذکور ہوئی ہیں وہ سب فطری چیزیں ہیں۔ جنہیں ہر شخص بچشم خود ملاحظہ کرسکتا ہے اور ایسے سیدھے سادے انداز میں بیان ہوئی ہیں جن کو سمجھنے کے لیے کسی خاص علم کی ضرورت نہیں۔ ہر شہری اور دیہاتی، ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب ان کو دیکھ کر ان میں غور کرسکتے ہیں اور ایسی ہی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور پوچھا ہے کہ یہ سب کچھ تو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے شریکوں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ اور اگر انہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا تو وہ اللہ کے شریک کیسے بن سکتے ہیں ؟
اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۔۔ : یہ سب نعمتیں جو ذکر ہوئیں، سب جانتے اور مانتے ہیں کہ ایک اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور جنھیں مشرکین پکارتے ہیں انھوں نے نہ کچھ پیدا کیا ہے، نہ کرسکتے ہیں، حتیٰ کہ اس کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتے (دیکھیے سورة حج : ٧٣) تو یہ بتاؤ کہ ہر چیز کے خالق کو تم نے ان بےبس ہستیوں کے برابر کردیا جو مکھی کا پر بھی نہیں بنا سکتیں، تو کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ سچ ہے : (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ) [ الأنعام : ٩١ ] ” انھوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی جو اس کی قدر کا حق تھا۔ “ یہ مضمون مفصل سورة رعد ( ١٦) میں ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ زمخشری نے یہاں سوال اٹھایا ہے کہ ” مَنْ “ کا لفظ تو ذوی العقول کے لیے ہوتا ہے، یہاں بتوں کے لیے کیوں استعمال ہوا، پھر جواب دیا ہے کہ چونکہ مشرکین انھیں حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے تھے، اس لیے ان کے عقیدے کے مطابق ” كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ “ فرمایا ہے۔ حالانکہ اس کا سادہ اور صحیح جواب یہ ہے کہ وہ محض پتھروں کو نہیں پوجتے تھے، بلکہ ان ہستیوں کو پکارتے تھے جن کے وہ بت بناتے تھے، مثلاً انھوں نے مریم، ابراہیم اور اسماعیل کے مجسّمے بیت اللہ کے اندر رکھے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و اتخذ اللہ إبراہیم خلیلا ) : ٣٣٥١، ٣٣٥٢ ] قوم نوح کے بت بھی اولیاء اللہ ہی کے مجسمے تھے۔ دیکھیے تفسیر سورة نوح ( ٢٣) یہ سب ذوی العقول تھے، بلکہ ذوی العقول کے استاد تھے، اس لیے زمخشری نے جو سوال اٹھایا ہے وہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔
خلاصہ تفسیر :- سو (جب اللہ تعالیٰ کا خالق اشیاء مذکورہ ہونا اور اس میں اس کا منفرد ہونا ثابت ہوچکا تو) کیا جو شخص پیدا کرتا ہو ( یعنی اللہ تعالیٰ ) وہ اس جیسا ہوجاوے گا جو پیدا نہیں کرسکتا (کہ تو دونوں کو معبود سمجھنے لگے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی اہانت ہے اس کو بتوں کے برابر کردیا) پھر کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے اور (اللہ تعالیٰ نے جو اوپر دلائل توحید میں اپنی نعمتیں بتلائی ہیں ان پر کیا حصر ہے وہ تو اس کثرت سے ہیں کہ) اگر تم اللہ تعالیٰ کی (ان) نعمتوں کو گننے لگو تو (کبھی) نہ گن سکو (مگر مشرکین شکر اور قدر نہیں کرتے اور یہ جرم اتنا عظیم تھا کہ نہ معاف کرانے سے معاف ہوتا اور نہ اصرار پر آگے کو یہ نعمتیں ملتیں لیکن) واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں (کہ کوئی شرک سے توبہ کرے تو مغفرت ہوجاتی ہے اور نہ کرے جب بھی تمام نعمتیں حیات تک منقطع نہیں ہوتیں) اور (ہاں نعمتوں کے فائض ہونے سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ کبھی سزا نہ ہوگی بلکہ آخرت میں سزا دیں گے یہ تو حق تعالیٰ کے خالق اور منعم ہونے کا بیان تھا) اور جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود ہی مخلوق ہیں (اور جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود ہی مخلوق ہیں (اور اوپر قاعدہ کلیہ ثابت ہوچکا ہے کہ غیر خالق اور خالق مساوی نہیں پس یہ معبودین کیسے مستحق عبادت ہو سکتے ہیں اور) وہ (معبودین) مردے (بےجان) ہیں (خواہ دواما جیسے بت یا فی الحال جیسے وہ لوگ جو مر چکے ہیں یا فی المال جو مریں گے مثلا جن اور عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرہم) زندہ (رہنے والے) نہیں (پس خالق تو کیا ہوتے) اور ان (معبودین) کو (اتنی بھی) خبر نہیں کہ (قیامت میں) مر دے کب اٹھائے جائیں گے (یعنی بعض کو تو علم ہی نہیں اور بعض کو تعیین معلوم نہیں اور معبود کے لئے علم تو محیط چاہئے۔- خصوصا قیامت کا کہ اس پر جزا ہوگی عبادت وعدم عبادت کی تو اس کا علم تو معبود کے لئے بہت ہی مناسب ہے پس خدا کے برابر تو علم میں کیا ہوں گے اس تقریر سے ثابت ہوا کہ) تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے تو (اس ایضاح حق پر بھی) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے (اور اسی لئے ان کو ڈر نہیں کہ توحید کو قبول کریں معلوم ہوا کہ) ان کے دل (ہی ایسے ناقابل ہیں کہ معقول بات کے) منکر ہو رہے ہیں اور (معلوم ہوا کہ) وہ قبول حق سے تکبر کرتے ہیں (اور) ضروری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کے حوال پوشیدہ وظاہر جانتے ہیں (اور یہ بھی) یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے (پس جب ان کا تکبر معلوم ہے تو ان کو بھی ناپسند کرینگے اور سزا دیں گے)- معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کی نعمتوں کا اور تخلیق کائنات کا مفصل ذکر کرنے کے بعد اس بات پر تنبیہ فرمائی جس کے لئے ان سب نعمتوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور وہ ہے توحید حق تعالیٰ کی کہ ان سے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اس لئے فرمایا کہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تنہا زمین و آسمان بنائے کوہ ودریا بنائے نباتات وحیوانات بنائے درخت اور ان کے پھول پھل بنائے تو کیا وہ ذات پاک جو ان سب چیزوں کی خالق ہے ان بتوں کی مانند ہوجائے گی جو کچھ پیدا نہیں کرسکتے تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔
اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 17- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا
(١٧) سو کیا جو پیدا کرتا یعنی اللہ تعالیٰ تو وہ ان بتوں جیسا ہوجائے گا کہ جو پیدا ہی نہیں کرسکتے تو کیا پھر بھی تم مخلوقات خداوندی کی اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔
آیت ١٧ (اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ )- مشرکین عرب نے مختلف ناموں سے جو بت بنا رکھے تھے ان کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے۔ سورة یونس کی آیت ١٨ میں ان کے اس عقیدے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : (وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ) ” اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں “۔ اللہ کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ وہ کائنات اور اس میں موجود ہرچیز کا خالق ہے اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ ان کے معبودوں کا اس تخلیق میں کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی وہ کوئی چیز تخلیق کرسکتے ہیں۔ قرآن میں ان کے اس عقیدے کا بھی بار بار ذکر آیا ہے : (وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ) (لقمان : ٢٥) ” اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو لازماً یہی کہیں گے کہ اللہ نے “ ان لوگوں کے اسی عقیدے کی بنیاد پر یہاں یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ تمہارے یہ خود ساختہ معبود ‘ جو کچھ بھی تخلیق کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ‘ کیا اس اللہ کی مانند ہوسکتے ہیں جو اس کائنات اور اس میں موجود ہرچیز کا خالق ہے ؟ اور اگر تم تسلیم کرتے ہو کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو کیا پھر بھی تم لوگ نصیحت نہیں پکڑتے ہو ؟
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :16 یعنی اگر تم یہ مانتے ہو ( جیسا کہ فی الواقع کفار مکہ بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں ) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات کے اندر تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے تو پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ خالق کے خلق کیے ہوئے نظام میں غیر خالق ہستیوں کی حیثیت خود خالق کے برابر یا کسی طرح بھی اس کے مانند ہو؟ کیونکر ممکن ہے کہ اپنی خلق کی ہوئی کائنات میں جو اختیارات خالق کے ہیں وہی ان غیر خالقوں کے بھی ہوں ، اور اپنی مخلوق پر جو حقوق خالق کو حاصل ہیں وہی حقوق غیر خالقوں کو بھی حاصل ہوں؟ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ خالق اور غیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی ، یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے ، حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ ہوگا ؟