[١٩] اللہ کی نعمتوں کا شمار ناممکن ہے :۔ یہ چند موٹی موٹی چیزیں ذکر کی گئی ہیں لیکن اگر تم ان کی جزئیات میں یا دوسری چیزوں میں غور کرو تو اللہ کی اس قدر نعمتیں معلوم ہوں گی جو شمار میں بھی نہیں آسکتیں۔ انسان کو چاہئے تو یہ تھا کہ ان نعمتوں کی وجہ سے وہ اللہ کا شکرگزار بنتا۔ مگر اس نے الٹا اللہ کے شریک بنانا شروع کردیئے پھر بھی اللہ ان کے ایسے جرائم کو درگزر کرتے ہوئے از راہ مہربانی انھیں ان تمام نعمتوں سے فیضیاب کر رہا ہے۔
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا : شمار ہی نہیں کرسکتے تو شکر کس طرح ادا کرسکتے ہو ؟ دیکھیے سورة ابراہیم (٣٤) کی تفسیر۔ - اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : یعنی یہ اس کی بخشش اور مہربانی ہے کہ تمہاری ناشکری کے باوجود تمہیں بیشمار نعمتیں عطا کرتا ہے اور توبہ کرنے اور پلٹ آنے پر تمہارے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ، ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ ) ” بندہ جب اعتراف کرلے، پھر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس پر مہربان ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاري، المغازي، باب حدیث الإفک : ٤١٤١۔ مسلم : ٢٧٧٠ ] پھر تھوڑے سے شکر پر بہترین جزا دیتا ہے، مقصد امید کا دروازہ کھلا رکھنا ہے۔
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 18- عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5]- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- حصا - الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی:- وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها»- ( ح ص ی ) الا حصاء - ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
(١٨) اگر تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو گننے لگو تو کبھی نہ گن سکو یا یہ کہ ہرگز شکر نہ ادا کرسکو واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے اور توبہ کرنے والے پر بڑی رحمت والے ہیں۔
آیت ١٨ (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا)- اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی تو کجا اس کی بیشمار نعمتیں ایسی ہیں جن سے انسان فیض یاب تو ہو رہا ہے لیکن ان تک انسان کے علم اور شعور کی ابھی پہنچ ہی نہیں۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :17 پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے ، اس لیے کہ وہ اس قدر عیاں ہے اور اس کے بیان کی حاجت نہیں ۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معا بعد اس کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے ۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں ، بے وفائیوں ، غداریوں اور سر کشیوں سے دے رہا ہے ، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صدہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں ۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات ، صفات ، اختیارات ، حقوق ، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں ، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رکتا ۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سر کشی و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں ، پھر مدت العمر اس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ ان پر جاری رہتا ہے ۔
11: یعنی اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں جب اتنی زیادہ ہیں کہ شمار میں نہیں آ سکتیں تو ان کا حق تو یہ تھا کہ اِنسان ہر آن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہی ادا کرتا رہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ اِنسان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے وہ اپنی مغفرت اور رحمت کا معاملہ فرما کر شکر کی اس کوتاہی معاف فرماتا رہتا ہے۔ البتہ یہ مطالبہ ضرور ہے کہ وہ اُس کے احکام کے مطابق زندگی گذارے، اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کا فرماں بردار رہے۔ اس کے لئے اُسے یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ اُس کے ہر کام کو جانتا ہے، چاہے وہ چھپ کر کرے یا علانیہ۔ چنانچہ اگلی آیت میں یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔