Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مشرکین کی جان کنی کا عالم مشرکین کی جان کنی کے وقت کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جب فرشتے ان کی جان لینے کے لئے آتے ہیں ، تو یہ اس وقت سننے عمل کرنے اور مان لینے کا اقرار کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی اپنے کرتوت چھپاتے ہوئے اپنی بےگناہی بیان کرتے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کر اپنا مشرک نہ ہونا بیان کریں گے ۔ جس طرح دنیا میں اپنی بےگناہی پر لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے تھے ۔ انہیں جواب ملے گا کہ جھوٹے ہو ، بد اعمالیاں جی کھول کر کہ چکے ہو ، اللہ غافل نہیں جو باتوں میں آ جائے ہر ایک عمل اس پر روشن ہے ۔ اب اپنے کرتوتوں کا خمیا زہ بھگتو اور جہنم کے دروازوں سے جا کر ہمیشہ اسی بری جگہ میں پڑے رہو ۔ مقام برا ، مکان برا ، ذلت اور سوائی والا ، اللہ کی آیتوں سے تکبر کرنے کا اور اس کے رسولوں کی اتباع سے جی چرانے کا یہی بدلہ ہے ۔ مرتے ہی ان کی روحیں جہنم رسید ہو جائیں اور جسموں پر قبروں میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگی ۔ قیامت کے دن روحیں جسموں سے مل کر نار جہنم میں گئیں اب نہ موت نہ تخفیف ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ) 40 ۔ غافر:46 ) یہ دوزخ کی آگ کے سامنے ہر صبح شام لائے جاتے ہیں ۔ قیامت کے قائم ہوتے ہی اے آل فرعون تم سخت تر عذاب میں چلے جاؤ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یہ مشرک ظالموں کی موت کے وقت کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات ڈالتے ہیں یعنی سمع وطاعت اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے۔ جس طرح میدان محشر میں اللہ کے روبرو بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے اللہ کی قسم، ہم مشرک نہیں تھے دوسرے مقام پر فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کر اپنے پاس جمع کرے گا تو اللہ کے سامنے بھی یہ اسی طرح (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔ 28۔ 2 فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں ؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری تو ساری عمر ہی برائیوں میں گزری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہے تمہارے اس انکار سے اب کیا بنے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] عذاب قبر اور اس کی کیفیت :۔ جن فرشتوں کے آنے کا اپنے نبی سے تقاضا کرتے رہے جب وہ آجاتے ہیں تو ان کی سب شیخیاں کر کری ہوجاتی ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں پھر اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنی نافرمانیوں اور حق کے خلاف سرگرمیوں سے یکسر انکار کردیں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے تاکہ انھیں فرشتوں کی طرف سے امن نصیب ہو۔ جس کا جواب انھیں یہ دیا جائے گا کہ کیا اب تم جھوٹ بول کر اللہ کو فریب دینا چاہتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہاری ایک ایک حرکت سے باخبر ہے کہ کس طرح تم نبیوں کے دشمن بنے رہے اور حق کو ٹھکراتے رہے اور اپنے کفر و شرک پر ڈٹے رہے۔ تمہاری اس سرکشی کی سزا یہ ہے کہ اب تم ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیئے جاؤ۔- فرشتوں کی یہ دھمکی مجرموں کو اسی دنیا میں مل جاتی ہے یعنی موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی ہر شخص کو اپنا انجام نظر آنے لگتا ہے بلکہ فرشتے اسے واضح طور پر بتادیتے ہیں۔ موت کی آخری ہچکی سے لے کر دوبارہ روز آخرت کو جی اٹھنے تک کے عرصہ کا نام برزخ ہے اور اسی عرصہ کو حدیث میں قبر اور جدث کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے خواہ میت فی الواقع مکمل ہو یا نہ ہو یا کسی دوسرے طریقے سے ٹھکانے لگا دی گئی ہو۔ کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو یا پانی میں غرق ہوگئی ہو۔ منکرین حدیث جو عذاب قبر کے منکر ہیں ان آیات میں ان کی تردید موجود ہے۔ جب روح بدن سے نکل جاتی ہے جسے موت کہا جاتا ہے تو اس وقت بھی روح نہ مرتی ہے نہ فنا ہوتی ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ساتھ قائم رہتی ہے اور یہی روح دوبارہ حشر و نشر کے دن اپنے جسم میں داخل کی جائے گی جو اسے اس دن مہیا کیا جائے گا۔ اسی کا نام دوسری زندگی ہے اور عالم برزخ میں جو عذاب یا ثواب ہوتا ہے جس کا مذکورہ آیات میں ذکر ہے وہ صرف روح کو ہوتا ہے جیسے کہ انسان کو خواب میں بسا اوقات دکھ پہنچتا ہے اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پٹائی ہو رہی ہے اور اس پٹائی کی اسے تکلیف بھی ہوتی ہے حالانکہ یہ سب واردات روح سے پیش آتی ہے اور جسم اپنے بستر پر پڑا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ جاگتا ہے تو خواب میں پٹائی کے اثرات صرف اس کے ذہن میں ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ جسم پر بھی پائے جاتے ہیں اور وہ خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ بالکل ایسی ہی کیفیت عذاب قبر کی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح خواب میں انسان کو راحت و مسرت کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور جب وہ اٹھتا ہے۔ تو وہ خود ہشاش بشاش ہوتا ہے اور سب کو اس کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا نظر آتا ہے۔ ثواب قبر کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ گویا عالم برزخ ایسی نیم زندگی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں موت کے اثرات چونکہ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے برزخ کی اس نیم زندگی کی حالت کو موت ہی سے تعبیر کیا گیا ہے (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف روح، عذاب قبر اور سماع موتی ملاحظہ فرمائیے

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۔۔ : ”۠فَاَلْقَوُا “ ” أَلْقٰی یُلْقِیْ “ (افعال) سے ماضی معلوم کا جمع مذکر غائب ہے۔ مراد مستقبل ہے، کیونکہ وہ ماضی کی طرح یقینی ہے۔ ” اِلْقَاءٌ“ کا لفظ اجسام کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ” فُلاَنٌ أَلْقَی السَّلَاحَ “ کہ فلاں نے ہتھیار پھینک دیے، یعنی اپنے آپ کو حوالے کردیا۔ ” السَّلَمَ “ کا معنی ” اِسْتِسْلَامٌ“ ہے، یعنی مکمل طور پر تابع اور مطیع ہونا۔ - ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اس سے مراد کفار ہیں، کیونکہ ” الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ “ پچھلی آیت میں مذکور ” اَلْکٰفِرِیْنَ “ کی صفت ہے اور اپنی جان پر سب سے بڑا ظلم کفر و شرک ہی ہے۔ (دیکھیے انعام : ٢٢) ظالم ہونے کی حالت میں انھیں فرشتوں کے فوت کرنے میں اس سختی کی طرف بھی اشارہ ہے جو اس وقت ان ظالموں پر گزرتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (٩٣) اور سورة انفال (٥٠) براء بن عازب (رض) کی طویل حدیث میں مومن اور کافر کی موت کے وقت فرشتوں کا ان سے سلوک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ [ مسند أحمد : ٤؍٢٨٧، ٢٨٨، ح : ١٨٥٦١۔ أبوداوٗد : ٤٧٥٣ ]- مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ : یعنی ساری عمر تو اہل ایمان سے مخالفت اور لڑنے میں گزار دی، اب حقیقت واضح ہونے پر اپنی فرماں برداری کا اظہار کریں گے کہ ہم تو کوئی برا کام کیا ہی نہ کرتے تھے۔ وہاں صاف جھوٹ بول کر سمجھیں گے کہ دنیا کی طرح یہاں بھی ہمارا جھوٹ چل جائے گا، بلکہ اس پر قسمیں بھی اٹھائیں گے۔ دیکھیے سورة انعام (٢٢، ٢٣) اور سورة مجادلہ (١٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۠فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28؀- وفی - وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] - ( و ف ی) الوافی - اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ ( الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ )- ایسے لوگ جنہیں اپنی زندگی میں اللہ یاد ہے نہ آخرت نیکی کی رغبت ہے نہ برائی سے نفرت بس اپنی عیش کوشی اور نفس پرستی میں مگن ہیں۔ اسی حالت میں جب فرشتے ان کے پاس پروانۂ موت لے کر آ دھمکیں گے :- (بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ )- موت کے فرشتوں کے سامنے وہ سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے اسلام اور اطاعت کا اظہار کریں گے اور اس طرح ان کے سامنے بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :25 یعنی جب موت کے وقت ملائکہ ان کی روحیں ان کے جسم سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: اس سے معلوم ہوا کہ عذاب میں صرف ان لوگوں کو ہوگا جو کفر کی حالت میں مرے ہوں۔ اگر کوئی مرنے سے پہلے پہلے سچی توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے اور اسے معاف کردیا جاتا ہے