29۔ 1 امام ابن کثیر فرماتے ہیں، ان کی موت کے فوراً بعد سب کی روحیں جہنم میں چلی جاتی ہیں اور ان کے جسم قبر میں رہتے ہیں (جہاں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جسم و روح میں بعد کے باوجود، ان میں ایک گونہ تعلق پیدا کر کے ان کو عذاب دیتا ہے، (اور صبح شام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے) پھر جب قیامت برپا ہوگی تو ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی اور ہمیشہ کے لئے یہ جہنم میں داخل کردیئے جائیں گے۔
[٢٩۔ الف ] یہ مضمون پہلے سورة الحجرأت آیت ٤٤ میں آچکا ہے وہاں سے حاشیہ دیکھ لیا جائے۔
فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کے دروازوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة حجر (٤٤) ۔
فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ 29- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم،- ( ث و ی )- الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔
(٢٩) سو جہنم میں جاؤ، اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہو، وہاں تمہیں نہ موت آئے گی اور نہ وہاں سے تم نکالے جاؤ گے، جہنم کافروں کا بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :26 یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت ، جس میں قبض روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے ، قرآن ان متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب و ثواب قبر کا ثبوت دیتی ہیں ۔ حدیث میں ”قبر“ کا لفظ مجازا عالم برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے ، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی ۔ منکرین حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہوگا ۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا ۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں ۔ اور فورا سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے ۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں ۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ ان کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں ۔ کیا برزخ کی زندگی ، احساس ، شعور ، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ اسی سے ملتا جلتا مضمون سورہ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے ۔ جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں سے قبض روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذاب برزخ کی تصریح سورہ مومن آیت نمبر ٤۵ – ٤٦ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالی فرعون اور آل فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ” ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے ، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ، پھر قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو“ ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا ۔ جسم سے علیٰحدہ ہو جانے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی ۔ اس حالت میں روح کی شعور ، احساس ، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے ۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا ، سب کچھ اس کیفیت سے مشابہہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہوگی ۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال ، اور پھر اس کا جنت کی بشارت سننا ، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا ، یہ سب بھی اس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہوگا جو حسن کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدہ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو ۔ یہ خواب ایک لخت نفخ صور دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدان حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ ( ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا لایا ؟ ) مگر اہل ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ( یہ وہی چیز ہے جس کا رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچا تھا ) ۔ مجرمین کا فوری احساس اس وقت یہ ہوگا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں ( جہاں بستر موت پر انہوں نے دنیا میں جان دی تھی ) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں ۔ مگر اہل ایمان پورے ثبات قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہ اِلیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ( اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اس چیز کو جانتے نہ تھے ) ۔