Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

متقیوں کے لیے بہترین جزا بروں کے حالات بیان فرما کر نیکوں کے حالات جو ان کے بالکل برعکس ہیں ۔ بیان فرما رہا ہے برے لوگوں کا جواب تو یہ تھا کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب صرف گزرے لوگوں کے فسانے کی نقل ہے لیکن یہ نیک لوگ جواب دیتے ہیں کہ وہ سراسر برکت اور رحمت ہے جو بھی اسے مانے اور اس پر عمل کرے وہ برکت و رحمت سے مالا مال ہو جائے ۔ پھر خبر دیتا ہے کہ میں اپنے رسولوں سے وعدہ کر چکا ہوں کہ نیکوں کو دونوں جہان کی خوشی حاصل ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے ، خواہ مرد ہو خواہ عورت ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے بڑی پاک زندگی عطا فرمائیں گے اور اس کے بہترین اعمال کا بدلہ بھی ضرور دیں گے ، دونوں جہان میں وہ جزا پائے گا ۔ یاد رہے کہ دار آخرت ، دار دنیا سے بہت ہی افضل و احسن ہے ۔ وہاں کی جزا نہایت اعلیٰ اور دائمی ہے جیسے قارون کے مال کی تمنا کرنے والوں سے علماء کرام نے فرمایا تھا کہ ثواب الٰہی بہتر ہے ، الخ قرآن فرماتا ہے آیت ( وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ) 3 ۔ آل عمران:198 ) اللہ کے پاس کی چیزیں نیک کاروں کے لئے بہت اعلیٰ ہیں ۔ پھر فرماتا ہے دار آخرت متقیوں کے لئے بہت ہی اچھا ہے ۔ جنات عدن بدل ہے دارا لمتقین کا یعنی ان کے لئے آخرت میں جنت عدن ہے جہاں وہ رہیں گے جس کے درختوں اور محلوں کے نیچے سے برابر چشمے ہر وقت جاری ہیں ، جو چاہیں گے پائیں گے ۔ آنکھوں کی ہر ٹھنڈک موجود ہو گی اور وہ بھی ہمیشگی والی ۔ حدیث میں ہے اہل جنت بیٹھے ہوں گے ، سر پر ابر اٹھے گا اور جو خواہش یہ کریں گے وہ ان کو عطا کرے گا یہاں تک کہ کوئی کہے گا اس کو ہم عمر کنواریاں ملیں تو یہ بھی ہو گا ۔ پرہیز گار تقویٰ شعار لوگوں کے بدلے اللہ ایسے ہی دیتا ہے جو ایمان دار ہوں ، ڈرنے والے ہوں اور نیک عمل ہوں ۔ ان کے انتقال کے وقت یہ شرک کی گندگی سے پاک ہوتے ہی فرشتے آتے ہیں ، سلام کرتے ہیں ، جنت کی خوشخبری سناتے ہیں ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:30 ) جن لوگوں نے اللہ کو رب مانا ، پھر اس پر جمے رہے ، ان کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں تم کوئی غم نہ کرو ، جنت کی خوشخبری سنو ، جس کا تم سے وعدہ تھا ، ہم دنیا آخرت میں تمہارے والی ہیں ، جو تم چاہو گے پاؤ گے جو مانگو گے ملے گا ۔ تم تو اللہ غفور و رحیم کے مہمان ہو ۔ اس مضمون کی حدیثیں ہم آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ ) 14 ۔ ابراہیم:27 ) کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] قرآن سراسر بھلائی ہے :۔ کفار مکہ سے جب آس پاس کے لوگ یہی سوال کرتے تو وہ کہتے کہ وہ تو بس پہلی قوموں کے قصے کہانیاں ہی ہیں جو ہم پہلے ہی بہت سن چکے ہیں لیکن وہی بیرونی لوگ جب یہی سوال کسی ایمان لانے والے اور متقی شخص سے کرتے ہیں تو ان کا جواب کفار مکہ کے جواب کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی پر جو تعلیم نازل ہوئی ہے اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں۔ پھر یہ لوگ صرف زبان سے ہی ان باتوں کا اقرار نہیں کرتے بلکہ اللہ کی اس نازل کردہ تعلیم کو اپنے آپ پر نافذ بھی کرتے ہیں۔ اور جن کاموں کے کرنے کا انھیں حکم ہوتا ہے وہ احسن طور پر بجا لاتے ہیں اور جن کاموں سے منع کیا جائے ان سے رک جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی بھلائیاں ہی نصیب ہوتی ہیں اور آخرت میں بھی دائمی خوشیاں اور بھلائیاں نصیب ہوں گی۔ گویا یہی قرآن کافروں کے لیے مزید گمراہی کا اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے مزید ہدایت کا سبب بن جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا ۔۔ : ” خَيْرًا “ ” خَیْرٌ“ اور ” شَرٌّ“ اصل میں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، یعنی ” أَخْیَرُ “ اور اَشَرّ “ ، تخفیف کے لیے ” خَیْرٌ“ اور ” شَرٌّ“ بنادیا گیا، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” بہترین بات “ یعنی سب سے اچھی بات۔ یہاں زمخشری نے ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ یہی سوال اس سورت کی آیت (٢٤) میں کفار سے کیا گیا تو ان کا جواب تھا ” اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ “ جو مرفوع ہے اور یہاں متقین سے یہی سوال ہوا تو انھوں نے کہا ” خَيْرًا “ جو منصوب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ” اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ “ مبتدا ” ھِيَ “ کی خبر ہے، اس لیے مرفوع ہے، یعنی کفار نے مانا ہی نہیں کہ رب تعالیٰ نے کچھ نازل فرمایا، ورنہ ” اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ “ منصوب ہوتا، اس کے برعکس متقین کا قول ” خَيْرًا “ ” أَنْزَلَ “ مقدر کا مفعول ہے، یعنی اسی نے خیر نازل فرمائی ہے۔ گویا متقین نے وحی الٰہی کا نزول بھی تسلیم کیا اور اس کے بہترین ہونے کی شہادت بھی دی۔ اس کے برعکس کافروں نے دونوں باتوں کا انکار کیا۔ - لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةٌ : ” حَسَـنَةٌ“ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ مومن کو دنیا کی زندگی میں بھی وہ سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے جو کافر کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا۔ صہیب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ لَہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِیْنَ ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩ ]” مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر کام ہی بہترین ہے اور یہ مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے بہترین ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ “ قرآن مجید میں مومن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ حیات طیبہ عطا کرنے کا ہے۔ دیکھیے سورة نحل (٩٧) ۔- وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ ۔۔ : اس میں ” دَارٌ“ موصوف اپنی صفت ” الْاٰخِرَةِ “ کی طرف مضاف ہے۔ آخری گھر اس لیے فرمایا کہ اس کے بعد اور کوئی گھر نہیں، ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہنا ہے۔ ” وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَ “ ” نِعْمَ “ فعل ماضی ہے، یہ مدح کے لیے ہے، مخصوص بالمدح ” ھِيَ “ ہے، اس کی ضد ” بِءْسَ “ ہے جو مذمت کے لیے ہے۔ لام تاکید کا معنی ” تو “ کے ساتھ اور ” خیر “ کا معنی تفضیل کی وجہ سے ” کہیں بہتر “ کے ساتھ کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جو لوگ شرک سے بچتے ہیں ان سے (جو قرآن کے بارے میں) کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز نازل فرمائی ہے وہ کہتے ہیں کہ بڑی خیر (اور برکت کی چیز) نازل فرمائی ہے جن لوگوں نے نیک کام کئے ہیں (جس میں یہ قول مذکور اور تمام اعمال صالحہ آگئے) ان کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے ( وہ بھلائی ثواب کا وعدہ و بشارت ہے) اور عالم آخرت تو (بوجہ اس کے کہ وہاں اس وعدہ کا تحقق و ظہور ہوجائے گا) اور زیادہ بہتر (اور موجب سرور) ہے اور واقعی وہ شرک سے بچنے والوں کا اچھا گھر ہے وہ گھر (کیا ہے) ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں یہ داخل ہوں گے ان باغوں کے (اشجار وعمارات کے) نیچے سے نہریں جاری ہوں گی جس چیز کو ان کا جی چاہے گا وہاں ان کو ملے گی (اور خاص انہی کی کیا تخصیص ہے جن کا قول اس مقام پر مذکور ہے بلکہ) اسی طرح کا عوض اللہ تعالیٰ سب شرک سے بچنے والوں کو دے گا جن کی روح فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (شرک سے) پاک (صاف) ہوتے ہیں (مطلب یہ کہ مرتے دم تک توحید پر قائم رہتے ہیں اور) وہ (فرشتے) کہتے جاتے ہیں السلام علیکم تم (قبض روح کے بعد) جنت میں چلے جانا اپنے اعمال کے سبب یہ لوگ (جو اپنے کفر وعناد و جہالت پر اصرار کر رہے ہیں اور باوجود وضوح دلائل حق کے ایمان نہیں لاتے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف) اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس (موت کے) فرشتے آجائیں یا آپ کے پروردگار کا حکم (یعنی قیامت) آجائے (یعنی کیا موت کے وقت یا قیامت میں ایمان لائیں گے جبکہ ایمان قبول نہ ہوگا گو اس وقت تمام کفار بوجہ انکشاف حقیقت کے توبہ کریں گے جیسا اصرار کفر پر یہ لوگ کر رہے ہیں) ایسا ہی ان سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے بھی (کفر پر اصرار) کیا تھا اور (اصرار کی بدولت سزا یاب ہوئے سو) ان پر اللہ تعالیٰ نے ذرا ظلم نہیں کیا لیکن وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے (کہ سزا کے کام جان جان کے کرتے تھے) آخر ان کے اعمال بد کی ان کو سزائیں ملیں اور جس عذاب (کی خبر پانے) پر وہ ہنستے تھے ان کو اسی (عذاب نے) آگھیرا (پس ایسا ہی تمہارا حال ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوْا خَيْرًا ۭ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةٌ ۭ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ ۭ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَ 30؀ۙ- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیتکریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) اور جو حضرات کفر وشرک اور تمام فواحش سے بچتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ کرام (رض) ان سے کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے سامنے تمہارے پروردگار کا کیا پیغام بیان کیا تو وہ کہتے ہیں کہ توحید اور صلہ رحمی بیان کی اور جو حضرات توحید خداوندی پر کار بند ہیں، ان کو قیامت کے دن جنت ملے گی اور جنت تو پھر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے کئی درجے بہتر ہے، اور واقعی جنت کفر وشرک اور فواحش سے بچنے والوں کے لیے اچھا گھر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَقِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ )- دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جن کے دلوں میں اخلاقی حس بیدار اور جن کی روحیں زندہ ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ جو کلام آپ لوگوں کو سناتے ہیں وہ کیا ہے ؟- (قَالُوْا خَیْرًا) - یعنی یہ کلام خیرہی خیر ہے اور ہماری ہی بھلائی کے لیے نازل ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :27 یعنی مکے سے باہر کے لوگ جب خدا سے ڈرنے والے اور راستباز لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تو ان کا جواب جھوٹے اور بددیانت کافروں کے جواب سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ وہ جھوٹا پروپیگنڈا نہیں کرتے ۔ وہ عوام کو بہکانے اور غلط فہمیوں میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ وہ حضور کی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی تعریفیں کرتے ہیں اور لوگوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani